صوابی میرا ، ہری پور کا گاؤں ہے جو کہ تربیلہ جھیل کے کنارے پر46 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
*تربیلہ جھیل کی نذر ہونے والی بستیوں پر ایک نظر:*
تحریر و تحقیق :محمد آصف خان.
ملک پاکستان کی ترقی میں متاثرین تربیلہ ڈیم کی قربانیوں کو سنہری حروف میں لکھا جائے تو بھی کم ہے، اپنے آباؤ اجداد کی قبروں تک قربانی دینی پڑی اور اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر در بدر ہوئے مگر ملک کو روشن اور سر سبز بنایا۔
خیر، تربیلہ ڈیم کی تعمیر کی سکیم پر 1960 کی دہائی میں آغاز ہوا. تربیلہ ڈیم (مٹی سے بنائے گے بند) کی تعمیرات کے آغاز سے پہلے کچھ رہائشیں اور دفاتر بنانے ضروری تھے۔ عین تربیلہ بند سے جڑی بستیاں، دریا کے رائیٹ بنک (مغربی کنارہ) اور لیفٹ بنک (مشرقی کنارہ) کو انخلاء کروایا گیا اور ان کی متبادل رہائش کے لیے ٹاؤن شپ تیار کئے گئے. لیفٹ بنک پر غازی ہملٹ جس میں موضع صوبڑہ، ڈل اور موہٹ کے لیے تین سیکٹر اور رائیٹ بنک پر گلہ ہملٹ نزد ٹوپی برائے موضع کیہارہ، باڑہ، پیہور اور سمبل کے لیے بنائے گئے.
17 نومبر 1967 کو لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت سیکشن 4 کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو زرعی و سکنی جائیداد کے انتقالات اور خرید و فروخت بند ہو گئے اور زمینوں کے ریٹ اس سے پچھلے پانچ سالہ اوسط کے مطابق لگائے گئے جبکہ زیادہ تر ایوارڈز 71-1970 میں ہوئے اور جولائی 1974 میں جھیل میں پانی بھر گیا تھا تمام لوگوں کو با امر مجبوری انخلاء کرنا حالانکہ متبادل آباد کاری ہونی باقی تھی مگر کیا کرتے پانی چڑھ دوڑا تھا۔
سب سے پہلے تربیلہ ڈیم سکیم کے تحت 1968 میں صوبڑہ گاؤں متاثر ہوا اور اس کے باسیوں کو انخلاء نقل مکانی کرنی پڑی۔ اس کے ساتھ ککڑ چوہاء، گڑھی میرا اور پہرواسہ کے گاؤں جزوی متاثر ہوئے البتہ ان کی آبادیاں بچ گئی تھیں.
صوبڑہ گاؤں (لیفٹ بنک) کو سب سے پہلے خالی کر کے تربیلہ ڈیم انتظامیہ کے لیے دفاتر، رہائشی کالونیاں، بنک، سیکورٹی، تھانہ، اسپتال، گیسٹ ہاوسز،، گالف گراؤنڈ، کرکٹ سٹیڈیم، آرمی پبلک سکول، سکولز، مساجد اور چرچ وغیرہ تعمیر ہوئے. اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشن اور ریل گاڑی کا سپیشل ریلوے ٹریک بچھایا گیا. اسی طرح موضع ڈل اور رائیٹ بنک پر پیہور کو بھی انخلا کرنا پڑا تھا جہاں ڈیم کی بنیادیں رکھی گئیں تھیں۔
اسی سال، 1968 میں تربیلہ ڈیم کے بند کی تعمیر کے لیے گدون: گندف سے مٹی اور بیسک سے مخصوص قسم کی ریت حاصل کرنے کے لیے زمین حاصل کی گئی. جو کنویئر بیلٹ کے ذریعے لائی جانی شروع ہوئیں. اس مخصوص ریت سے کنکریٹ کی جاتی اور مٹی سے بند کی بھرائی کی جاتی.
تربیلہ ڈیم کا بند موضع پیہور (رائیٹ بنک) اور موضع ڈل (لیفت بنک) پر تیار کیا گیا. پاور ہاؤس پیہور کے مقام پر بنایا گیا. ڈل گاؤں کا کچھ قبرستان اور کسی بزرگ اللہ کے ولی رحمت اللہ کا مزار اب بھی تربیلہ بند کے درمیانی قدرتی پہاڑی پر آج بھی موجود ہے.
آج کے آرٹیکل میں تربیلہ ڈیم کی متاثرہ بستیوں کا ذکر ہو گا.
اس آرٹیکل میں متاثرہ بستیوں کا ذکر تربیلہ ڈیم سے شروع کر کے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ شمال کو سفر کرتے ہوئے کریں گے اور پھر دریائے سرن کے ساتھ ساتھ مغرب سے مشرق اور پھر شمال کو سفر کریں گے. اسی طرح دریائے دوڑ کے ساتھ ساتھ مشرق سے مغرب اور جنوب میں سفر کریں گے. ان بستیوں کو دریاؤں کے آمنے سامنے (آر-پار) کلسٹرز وائز، پہلے رائیٹ بنک پھر لیفٹ بنک کا ذکر کیا جائے گا. (رائیٹ بنک دریا کے بہاؤ کی طرف منہ کر کے دیکھا جاتا ہے ظاہر ہے رائیٹ بنک دائیں اور لیفٹ بنک پانی کے بہاؤ کے بائیں ہاتھ پر واقع ہوتا ہے).
تربیلہ جھیل کی نذر ہونے والی متاثرہ بستیاں، دریائے سندھ کے رائیٹ بنک:
1 پیہور، 2 باڑہ، 3 کیہارہ (یہ تین بستیاں ٹوپی صوابی کی متاثر ہوئیں). 4 سمبل، 5 پھنیاں، 6 بُرج پھنیاں، 7 نوچھی، 8 شگئی، 9 گِدر بانڈی، 10 کھبل زریں، 11 کھبل بالا 12 کیاء زریں. 13 کیاء بالا، 14 گلی سیداں، 15 کالی شیرا، 16 منڈی سیداں، 17 گڑھی ستھانہ. (علاقہ اتمان بالا ہری پور ہزارہ کا اختتام ہوا اور اب ہم سابقہ امب سٹیٹ کے علاقہ میں داخل ہونے جا رہے ہیں)
18 ڈب ڈھیری، 19 رڑ، 20 عشراہ، 21 کنیرڑی 22 لگڑاہ، 23 امب زریں، 24 امب بالا، 25 بیسگ، 26. سنگا (رائیٹ بنک امب سٹیٹ کا اختتام ہوا اور علاقہ کالا ڈھاکہ/طور غر شروع ہونے جار ہے). 27 کیاں سیداں، 28 لکوال، 29 مہابڑا زریں، 30 مہابڑا بالا.31 برنجل (زمین متاثر ہوئی)، 32 بھوکاڑا (زمین متاثر ہوئی) 33 گٹہ (زمین متاثر ہوئی)۔ 34 نادرے (زمین متاثر ہوئی)۔ 35 مریڑ، 36 گھڑی (زمین متاثر ہوئی)۔ 37 نیو کلے (زمین متاثر ہوئی)۔ 38 پلوسہ, 39 کرنا (جزوی آبادی متاثر ہوئی).
(رائیٹ بنک کالا ڈھاکہ کا اختتام ہوا اور ضلع شانگلا سوات کا متاثرہ علاقہ شروع ہونے جا رہا ہے)۔ 40 ڈب کلے دیدل، 41 والی سوات قلعہ دیدل، 42 دیدل, 43 کماچ، 44 بھڑ کماچ، 45 بانڈہ کماچ، 46 بیاڑ کماچ, 47 کابل گرام شانگلہ(زمین متاثر ہوئی)۔ دریا سندھ رائیٹ بنک آباد متاثرہ بستیوں اور جھیل کا اختتام ہوا۔
آئیے، اب دوبارہ تربیلہ ڈیم سے دریا سندھ کے لیفٹ بنک سے بطرف شمال دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں:
48 سوبڑا، 49 بھرواسہ (جزوی)، 50 گڑھی میرا (جزوی) ، 51 ککڑ چوآ (جزوی)، 52 ڈل، 53 موہٹ، 54 تُرپکھی، 55 جھاڑ پھر تربیلہ جو کہ ایک ٹاؤن تھا جس میں: (56 جٹو، 57 گوجرہ، 58 لقمانیہ، 59 گِدر بانڈی، 60 ٹاہلی) شامل تھے.61. بانڈہ ملاح ڈھیری، 62 ڈھیری، 63 موزاء بنگ، 64 بنگ، 65 خانپور، 66 توی، 67 باندہ ملاح زریں، 68 باندہ ملاح بالا (انھیں بانڈہ بسنت بھی کہا جاتا ہے)، 69 نواں گراں، 70 کھرکوٹ، 71. انورہ، 72. لالوگلی، 73 پلابنڑیں، 74 دیرہ، 75 کرپلیاں، 76 میرا خیرو، 77 میرا سیداں.
(لیفٹ بنک, سابقہ امب سٹیٹ کا علاقہ شروع ہونے جا رہا ہے) 78 ابی بینڑں، 79 دکانی زریں، 80 دربند، 81 فرید آباد، 82 گمٹی، 83 ہوتر، 84 میرا اور 85 تیربٹ. 86 چھپر اور 87 بروٹی جزوی متاثر ہوئے.
(اب لیفٹ بنک پر علاقہ کالاڈھاکہ/طور غر شروع ہونے جا رہا ہے). 88 میاں بیلہ، 89 ڈبرئی، 90 کنڈر، 91 طوارہ، 92 کوٹکے، 93 کنہار شریف, 94 غازی کوٹ، 95 ڈاڈم (زمین متاثر ہوئی)، 96 بکرئی(زمین متاثر ہوئی)۔ 97 مچھرا (زمین متاثر ہوئی)، 98 بیمبل (زمین متاثر ہوئی) 99 بلیانی زریں، 100 بلیانی بالا، 101 سورمل (زمین متاثر ہوئی) 102 کوٹلئی، (زمین متاثر ہوئی)۔ 103 جدباء،(زمین متاثر ہوئی)۔ 104 شگئی (زمین متاثر ہوئی)۔ یہاں تربیلہ جھیل کی آخری حد ہے.
(تربیلہ ڈیم سے شگئی کالا ڈھاکہ جھیل کی لمبائی 97 کلومیٹر ہے اور شگئی سے تھاکوٹ بٹگرام 30 کلومیٹر ہے).
دریائے سندھ کے بعد اب معاون دریا، دریائے سرن جو تربیلہ گاؤں میں دریائے سندھ میں مشرق سے مغرب بہتا ہوا، دریائے سندھ جو شمالاً جنوباً بہتا تھا میں شامل ہوتا تھا اور سنگم (T کی شکل) بناتا تھا اور اس مقام کو سِر مُنہ کہا جاتا تھا یہ جگہ تربیلہ اور کھبل کے درمیان کشتیوں کا مرکزی گَدر تھا. اب معاون دریا، دریائے سرن کے ساتھ ساتھ مشرق کو چلتے ہیں. رائیٹ بنک پر ڈھیری کی بستی واقع تھی جو پہلے شمار ہو چکی ہے، 105 ترناوا، 106 میرا، 107 کنڈ، 108 مورتی، 109 ڈب، 110 سانجی کسی، 111 کندریالہ، 112 جھنگ، 113 گھوڑا، 114 نوازگاہ، 115 لنگر، 116 مرادپور اور 117 سیدپور (جم)
اور، اب واپس دریا سرن کے لیفٹ بنک سے دوبارہ چلیں گے، تربیلہ (جٹو، گوجرہ، لقمانیہ، گِدربانڈی اور ٹاہلی کا شمار پہلے دریاۂے سندھ کے ساتھ بھی ہو چکا ہے لہزا ان کو دوبارہ نمبر شمار نہیں دیا گیا)، 118 تندولہ، 119 گرہان (جزوی متاثرہ) 120 ہروڑہ، 121 تھپلہ، 122 نڈی بستی، 123 کوٹ، 124 بانڈہ ککڑچوآ، 125 کرہیڑیاں، 126 اچہ بیلہ، 127 پنڈ خانخیل، 128 چریاں، 129 کچھی، 130 سوہا اور 131بیڑی اور 132 بیڑ (جزوی متاثرہ). یہ ہوا دریائے سرن کا علاقہ۔
اب چلتے ہیں دریائے دوڑ کے علاقہ کی متاثرہ بستیوں کی طرف.
دریائے دوڑ جو تھپلہ پل کے پاس دریائے سرن میں شامل ہو کر سنگم (Y کی شکل) بناتا تھا. اس کے رائیٹ بنک کی متاثرہ بستیاں: 133 پکا پنیالہ، 134 پہارُو، 135 پھولدہار، 136 درگڑی، 137 جوڑاپنڈ، 138 دروازہ (جزوی متاثرہ گاؤں بچ گیا زمین زیر آب آئی)، 139 کاگ (جزوی متاثرہ زمین اور گاؤں متاثر ہوا کچھ اراضی بچ گئی جس پر دوبارہ آبادی کی گئی)، 140 جبہ، 141 بصیرہ، 142 جامعہ اُتمان (جزوی متاثر گاؤں اور کچھ زمین جھیل سے باہر بچ گئی) اور اب دریائے دوڑ کے لیفٹ بنک چلتے ہیں. 143 داڑی، 144 ناڑہ (ناڑہ کی اراضی متاثر ہوئی جبکہ گاؤں بچ گیا) 145 بِڑیاں، 146 ممائیہ، 147 باہدو، 148 ڈانڑاں، 149 کھیوہ، 150 جاگل (اس گاؤں کی داخلیاں دھمکار کالونی، بھورا بانڈہ اور بسومیرا غیر متاثرہ رقبے ہیں) 151 کھلابٹ، 152 کانڈل، 153 پڈھانہ (پڈہانہ کچھ رقبہ پانی سے باہر بچ گیا تھا جہاں یہ گاؤں دوبارہ آباد ہوا) 154 ڈھینڈہ، 155 پنیاں اور 156 بھیرہ کا جزوی رقبہ متاثر ہوا جبکہ گاؤں محفوظ ہیں.
اس کے علاوہ کھلابٹ ٹاؤن شپ متاثرین کی آباد کاری سکیم کے تحت 157 قاضیاں، 158 چک سکندرپور، 159 ملکیار، 160 چھوہر شریف اور 161 کالس کا رقبہ متاثر ہوا.
کانگرہ کالونی کے لیے 162 کانگرہ گاؤں کا رقبہ متاثر ہوا.
غازی ہملٹ کے لیے 163 پپلیالہ اور 164 گھاڑا کا رقبہ متاثر ہوا. 165 موضع غازی کا رقبہ تربیلہ ڈیم کی تربیلہ ریسٹلمنٹ آرگنائزیشن کے دفاتر کے لیے حاصل کیا گیا جہاں کلکٹرز حصول اراضی کے دفاٹر بنائے گئے. آج کل ان میں تحصیل غازی کے دفاتر اور عدالتیں وغیرہ ہیں اور مختلف محکمے موجود ہیں۔
گلہ ہملٹ کے لیے 166 گلہ (ٹوپی) کا رقبہ متاثر ہوا. اور، نیو دربند ٹاون کے لیے 167 چوئیاں گھاڑا کا رقبہ متاثر ہوا نیز 168 گندف اور 169 بیسگ (گدون) کا جزوی رقبہ بسلسلہ تعمیر تربیلہ ڈیم اور حصول میٹیریل متاثر ہوا تھا۔
زہے نصیب، تربیلہ جھیل کی 90 فیصد بستیاں جو جھیل کی نذر ہوئیں وہ بستیاں وادیوں، زرخیز زمینوں اور باغات پر مشتمل تھیں۔زمینیں اور آبادیاں ڈوب گیئں مگر ان آبادیوں کی ملکیتی قیمتی پہاڑ، وسائل اور معدنیات بلا معاوضہ ویسے ہی جھیل کے کنارے بے کار اور بے یار و مدد گار پڑے رہ گئے ہیں۔
آبادیاں اور زمینیں جھیل کی نذر ہو گئیں اور ہزاروں ایکڑ انتہائی قیمتی ملکیتی پہاڑ خواہ مخواہ ناقابل استعمال اور غرق ہو گئے۔
آرٹیکل کا اختتام اختر انصاری کے اشعار پر کیا جاتا ہے:یہ آذر بائیجان نہیں نہ ہی کوئی دور پار کا کوئی سیاحتی مقام ہے۔ یہ خوبصورت جگہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں واقع ہے اور آپ ہری پور سٹی سے صرف اور صرف آدھے گھنٹے میں یہاں با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ تربیلا کا جو نظارہ آپ کو یہاں سے ملتا ہے وہ شاید ہی کہیں اور سے ملتا ہوں۔
پانی کے ساتھ ہی ایک گھنا جنگل ہے جو یہاں کی خوبصورتی کو مزید دلکش بنا دیتا ہے اس کے ساتھ ہی یہاں آپ کو سینکڑوں قسم کے پرندے آس پاس اڑتے ہوئے اور شور کرتے ہوئے سنائی دینگے۔ پانی کے بیچ میں ایک چھوٹے اور خوبصورت جزیرے کا نظارہ بھی آپ کو مسحور کردے گا۔
ہری پور مین بازار سے آپ نے پنیاں چوک پہ آنا ہوگا وہاں سے غازی والی سڑک پر تقریباً چار کلو میٹر چل کر آگے ریاض مسجد آئے گی۔ اس مسجد کے بالکل سامنے ایک سڑک نکہ گاؤں کو جاتی ہے۔ اسی سڑک پر تقریباً 15 منٹ کے بعد آپ کو پانی بالکل سامنے نظر آئے گا۔ وہاں سے آپ کسی سے بھی راہنمائی لے سکتے ہیں اور آپ ہری پور کی سب سے خوبصورت مقام پر پہنچ جائیں گے۔
تحریر :پہاڑوں کا سفر