17

قصہ دریائے جہلم کا۔

دریائے جہلم :
دریائے جہلم پاکستان کے پانچ بڑے دریاؤں میں اپنا شمار رکھتا ہے ۔۔اس کا پنجابی نام
جِہلم دریہ ہے اور زیلم دیوناگری زبان میں کہتے ہیں دریائے جہلم اردو زبان میں کہا جاتا ہے ویتھ کشمیری زبان میں کہتے ہیں ۔
دریائے پونچھ دریائے جہلم میں شامل ہو جاتا ہے اور ایک وسیع و عریض منگلا ڈیم اور جھیل بنتی ہے۔ چومکھ چار دریاوں کے منہ کو کہتے ہیں جو کہ جہلم ،نیلم،کنہار اور پونچھ ہیں ۔دریائے جہلم موضع سلطانپور کے مقام پہ پہنچ کر میدانی علاقہ سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور جنوب مغرب کو بہتا ہوا تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے چناب سے مل جاتا ہے۔یہ مغربی پنجاب کے دریاؤں میں سے اہم دریا ہے۔ یہ سارے دریا پنجند کے قریب دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں۔
سلطانپور منگلا کے مقام پر ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کا پانی اس ڈیم میں آتا ہے۔ اس کو سلطانپورمنگلاڈیم کہتے ہیں۔ اس کا پانی آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے کے کام آتا ہے۔ دریائے جہلم پاکستان میں جہلم، ملکوال اور خوشاب کے میدانی علاقوں سے بہتا ہوا ضلع جھنگ میں تریموں کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔
دریائے جہلم پر1967ء میں سلطانپور ضلع جہلم اور موضع کھڑی ضلع میرپور کی سرحد پہ منگلا ڈیم بنایا گیا اور اس میں 5.9 ملین ایکڑ پانی محفوظ کیا جا سکتا ہے، اسی دریا پر 1967ء میں رسول بیراج تعمیر کیا گیا ۔ دریائے جہلم سے دو نہریں نکالی گئی ہیں، لوئر جہلم کینال 1901ء میں ضلع گجرات کے مقام رسول سے نکالی گئی، اس کی مزید دو شاخوں کھارا در مشین سے ضلع جھنگ کا شمالی حصہ سیراب ہوتا ہے، اپر جہلم 1915ء میں تعمیر کی گئی، اس کا پانی منگلا سے دریائے چناب تک جاتا ہے۔ رسول بیراج سے رسول قادر لنک اور چشمہ جہلم لنک کینال نکالی گئی ہیں۔
دریائے جہلم اور چناب کے درمیانی علاقہ کو دوآبہ چچ کہتے ہیں۔ اس کے مغربی حصہ کو تھل کہتے ہیں۔ رسول بیراج کے مقام پر دریائے سندھ سے نہر لوئر جہلم نکالی گئی ہے جو ضلع سرگودھا تحصیل شاہ پور، پاکستان کو سیراب کرتی ہے۔ رسول کی پن بجلی کا منصوبہ اسی کا مرہون منت ہے۔ نہراپر جہلم منگلا ’’ آزاد کشمیر‘‘ کے مقام پر سے نکالی گئی ہے۔ اور ضلع گجرات کے بعض علاقوں کو سیراب کری ہے۔ آب پاشی کے علاوہ ریاست کشمیر میں عمارتی لکڑی کی برآمد کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ یہی دریا ہے۔ سکندر اعظم اور پورس کی لڑائی اسی دریا کے کنارے لڑی گئی تھی۔ سکندر اعظم نے اس فتح کی یادگار میں دریائے جہلم کے کنارے دو شہر آباد کیے۔ پہلا شہر بالکل اسی مقام پر تھا جہاں لڑائی ہوئی تھی۔ اور دوسرا دریا کے اس پار یونانی کیمپ میں بسایا گیا تھا۔ اس شہر کو سکندر اعظم نے اپنے محبوب گھوڑے بوسیفالس سے منسوب کیا جو اس لڑائی میں کام آیا تھا۔جہلم کا موجودہ شہر اس مقام پر آباد ہے۔ ضلع جہلم میں مشہور قلعہ رہتاس بھی موجود جو شیر شاہ سوری نے گکھڑ جنگجووں سے لڑنے کے لیے تعمیر کروایا تھا اس کے علاؤہ منگلا قلعہ بھی موجود ہے جبکہ سلطانپور قلعہ دوران تعمیر ڈیم مسمار کر دیا گیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں