1

معطل کافی: انسانیت کی وہ خوشبو جو سرحدوں کی محتاج نہیں

ناروے، یورپ کا ایک ترقی یافتہ، خوشحال اور مہذب ملک ہے۔ وہاں کی سڑکیں، عمارتیں، نظامِ تعلیم اور طرزِ زندگی دنیا کے کئی ممالک کے لیے ایک مثالی نمونہ ہیں۔ لیکن ناروے کی ایک اور خوبصورتی ہے، جو کسی عمارت، ٹیکنالوجی یا انفراسٹرکچر سے نہیں، بلکہ دلوں کی وسعت اور انسانیت کے احترام سے جڑی ہے۔

اگر آپ کبھی ناروے کے کسی شہر میں گھومنے نکلیں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو ایک کیفے یا ریستوران میں ایک انوکھا منظر دیکھنے کو ملے۔ ایک شخص کاؤنٹر پر آ کر کہتا ہے:
“پانچ کافی، ایک معطل”۔
پھر وہ پانچ کافیوں کی قیمت ادا کرتا ہے، چار کپ لے جاتا ہے اور ایک چھوڑ دیتا ہے۔ وہ ایک کپ کسی ایسے شخص کے لیے ہوتا ہے جو اس کی قیمت نہیں ادا کر سکتا لیکن اسے بھی ایک گرم کافی کی ضرورت ہے۔

تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص آتا ہے:
“چار لنچ، دو معطل”۔
یعنی وہ چار دوپہر کے کھانوں کی قیمت دیتا ہے، دو لے جاتا ہے اور دو چھوڑ دیتا ہے – کسی انجان ضرورت مند کے لیے۔

اسی طرح دن بھر لوگ آتے جاتے ہیں۔ کوئی معطل کافی چھوڑتا ہے، کوئی معطل کھانا، اور پھر ایک وقت آتا ہے جب ایک ضرورت مند، پرانے کپڑوں میں ملبوس، تھکا ہارا شخص آ کر پوچھتا ہے:
“کوئی معطل کافی ہے؟”
اور کاؤنٹر پر موجود لڑکی فوراً مسکرا کر گرم کافی کا کپ اس کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔

کوئی دوسرا آ کر پوچھتا ہے:
“کوئی معطل لنچ؟”
اور جواب میں اسے ایک پارسل دیا جاتا ہے، ساتھ پانی کی بوتل بھی۔

یہ ہے انسانیت۔
یہ ہے وہ خاموش خیرات جو بغیر نام، بغیر شہرت اور بغیر کسی تشہیر کے صرف خالص جذبے کے ساتھ دی جاتی ہے۔
یہ ہے وہ مہربانی جو ہاتھ تھام کر نہیں، دل چھو کر مدد کرتی ہے۔

“معطل کافی” کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟

اس خوبصورت روایت کا آغاز ناروے سے نہیں بلکہ اٹلی کے شہر نیپلز سے ہوا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہاں کے لوگ کیفے میں ایک کپ اپنی لیے خریدتے اور ایک “Sospeso” یعنی معطل کافی کے طور پر کسی غریب کے لیے چھوڑ دیتے۔ یہ روایت وقت کے ساتھ یورپ، امریکہ، کینیڈا، حتیٰ کہ ایشیا تک پھیل گئی۔

کچھ ملکوں میں اسے “Pay it Forward” کہا جاتا ہے، یعنی “کسی کی مدد کرو، بغیر کسی صلے کے”۔

کیا پاکستان میں یہ ممکن ہے؟

یقیناً!
پاکستان وہ ملک ہے جہاں لوگوں کے دل نرم اور جذبے بلند ہوتے ہیں۔ رمضان میں افطاری بانٹنے والے، سردیوں میں کمبل دینے والے، اور عید پر نئے کپڑے دینے والے لاکھوں لوگ اس سرزمین پر بستے ہیں۔

تو پھر کیوں نہ ہم اس “معطل کافی” جیسی روایت کو اپنے رنگ میں یہاں رواج دیں؟
کیوں نہ کوئی “معطل چائے”، “معطل بریانی”، یا “معطل نان چنے” ہو؟
کوئی ریڑی والا اپنے پاس ایک نان رکھ لے – کسی مزدور کے لیے۔
کوئی ہوٹل والا ایک پلیٹ دال روزانہ کسی انجان کے لیے محفوظ کر دے۔
اور کوئی شہری روزانہ اپنے گلی محلے کے ہوٹل پر “دو معطل کھانے” کی رقم جمع کرا دے۔

یہ صرف کھانا نہیں ہو گا،
یہ ایک بھوکے پیٹ کے لیے عزت ہو گی،
ایک تھکے ہوئے دل کے لیے محبت ہو گی،
اور اس معاشرے کے لیے ایک مثبت تبدیلی کی شروعات ہو گی۔

سماجی بھلائی کا یہ خاموش انقلاب

معطل کافی یا معطل کھانے کی یہ روایت ہمیں بتاتی ہے کہ خیرات دکھاوے کی محتاج نہیں۔ نہ بینرز کی، نہ سوشل میڈیا پوسٹس کی۔
یہ ایک ایسا صدقہ ہے جو دینے والا بھی نہ جانے، اور لینے والا بھی شرمندہ نہ ہو۔

ہمارے ہاں ضرورت مند اکثر احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں خیرات اس طرح ملتی ہے جیسے احسان کیا جا رہا ہو۔
مگر یہ معطل کافی کا نظام عزت نفس کو مجروح نہیں کرتا۔
نہ تو لینے والے کو جھکنا پڑتا ہے،
نہ دینے والے کو بلند ہونا پڑتا ہے۔
یہ برابری کا رشتہ ہے – ایک دل سے دوسرے دل تک۔

ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟

اگر آپ ایک دکان، کیفے یا ہوٹل چلاتے ہیں، تو اپنے ہاں ایک چھوٹا سا بورڈ لگا دیں:
“یہاں معطل کھانے یا چائے کی سہولت موجود ہے”۔

اگر آپ گاہک ہیں، تو جب بھی ممکن ہو، ایک اضافی کھانے کی قیمت دے کر کسی انجان ضرورت مند کے لیے “معطل” چھوڑ دیں۔

اگر آپ استاد ہیں، تو بچوں کو یہ روایت سکھائیں۔
اگر آپ والدین ہیں، تو اپنے بچوں کے ساتھ ایک دن کسی ہوٹل پر جا کر “معطل کھانا” دیں۔

یہ صرف ایک کپ کافی نہیں…

یہ صرف ایک چائے کا کپ نہیں، یہ محبت کا ایک جام ہے۔
یہ صرف ایک کھانے کی پلیٹ نہیں، یہ بھوک پر رحم کی جیت ہے۔

جب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کسی کے لیے کچھ چھوڑ دیتے ہیں، تو ہم صرف اس کی مدد نہیں کر رہے، بلکہ اپنے معاشرے کو بہتر بنا رہے ہیں۔

آج اگر ہم نے ایک معطل چائے دی، کل کوئی اور کسی اور کے لیے ایک معطل دوا دے گا۔
یہی وہ زنجیر ہے جس سے معاشرہ جڑتا ہے، اور یہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو انسان بناتا ہے۔

آخر میں…

یہ سچ ہے کہ ناروے جیسے ملک میں ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ صرف ان کا خاصا نہیں ہونا چاہیے۔
یہ روایت ہمارے گلی کوچوں، ہوٹلوں، چائے خانوں، مسجدوں اور اسکولوں تک پہنچنی چاہیے۔

آئیے!
ہم بھی کسی انجانے کے لیے کچھ معطل چھوڑیں۔
چاہے وہ چائے ہو، کھانا، دوا، کتاب، یا کپڑا۔

کیونکہ کبھی نہ کبھی،
شاید ہم خود بھی
کسی کی معطل محبت کے محتاج ہو جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں