14

انڈس کینال منصوبہ: سیاست کا پانی، سندھ کا نقصان

پاکستان میں پانی ہمیشہ سے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی معیشت، ثقافت اور روزگار کا انحصار زیادہ تر دریاؤں پر ہے۔ خاص طور پر دریائے سندھ پاکستان کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے۔ یہی دریا ہے جو خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی زمینوں کو زرخیز بناتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج یہی دریا ایک نئے تنازعے کا مرکز بن چکا ہے، جس کی جڑیں ایک متنازعہ منصوبے ’’انڈس کینال‘‘ سے جڑی ہوئی ہیں۔

بلاول بھٹو کا دھمکی آمیز بیان: حقیقت یا سیاست؟

حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حیدرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی حکومت نے انڈس کینال کا منصوبہ فوراً بند نہ کیا تو پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی۔ انہوں نے اسلام آباد والوں کو ’’اندھا، بہرا‘‘ قرار دیا اور سخت لہجے میں کہا کہ ہم آپ کی وزارتوں کو لات مارتے ہیں۔

یہ الفاظ بظاہر سندھ کے عوام کے حق میں نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کے پیچھے ایک سیاسی چال چھپی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت نہ صرف سندھ میں حکومت کر رہی ہے بلکہ وفاق میں صدر مملکت، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر اور دیگر اہم عہدے بھی ان کے پاس ہیں۔ اگر واقعی پارٹی کو انڈس کینال پر اعتراض ہے، تو وہ صرف بیانات تک محدود کیوں ہے؟ وہ عملی اقدامات کیوں نہیں اٹھا رہی؟ یہاں واضح تضاد نظر آتا ہے۔

انڈس کینال کیا ہے؟ اور اصل فائدہ کس کو ہوگا؟

انڈس کینال دراصل ایک نیا منصوبہ ہے جس کے تحت دریائے سندھ سے بہاولپور، چولستان اور جنوبی پنجاب کے مخصوص علاقوں میں پانی لے جایا جائے گا۔ منصوبے کا دعویٰ ہے کہ یہ غیر آباد زمینوں کو زرعی استعمال میں لانے کے لیے ہے۔ لیکن جب ہم گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس منصوبے سے عام چولستانی یا عام کسان کو فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ ان مخصوص زمینداروں کو فائدہ پہنچے گا جن کی ان علاقوں میں ہزاروں ایکڑ زمینیں پہلے سے موجود ہیں، لیکن پانی کی کمی کے باعث وہ بنجر پڑی تھیں۔

یہ منصوبہ غریب کے لیے نہیں، بلکہ طاقتور کے لیے ہے۔ وہ لوگ جو پہلے ہی سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ اب ان زمینوں کو آباد کر کے نہ صرف مالی فائدہ اٹھائیں گے بلکہ ان علاقوں میں اپنی گرفت بھی مزید مضبوط کریں گے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب پورا سندھ پانی کی قلت کا شکار ہے تو اس دریا سے مزید پانی نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ سندھ کے ساتھ ناانصافی نہیں؟

دریائے سندھ کا ڈیلٹا اور سمندر کو درپیش خطرات

دریائے سندھ کا پانی جب سمندر تک پہنچتا ہے تو وہ ایک قدرتی نظام کا حصہ بنتا ہے جسے “ڈیلٹا” کہتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں دریا کا پانی سمندر سے ملتا ہے اور ایک مخصوص قسم کی نباتات، جانوروں اور آبی زندگی کا دار و مدار اسی پانی پر ہوتا ہے۔ اگر یہ پانی کم ہو جائے تو نہ صرف زراعت متاثر ہوتی ہے بلکہ مچھلیوں، جھینگوں اور دیگر آبی حیات کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

سندھ کے ساحلی علاقوں جیسے ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں ہزاروں لوگ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ ان کی روزی اسی پانی سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر انڈس کینال منصوبہ مکمل ہوتا ہے تو یہ پانی مزید کم ہو جائے گا۔ ڈیلٹا میں کھاراپن بڑھ جائے گا، زمینیں ناقابلِ کاشت ہو جائیں گی، اور سمندر زمین نگلنے لگے گا، جیسا کہ پہلے ہی ہو رہا ہے۔ پانی کی یہ کمی صرف زراعت نہیں، پورے ایکو سسٹم کو تباہ کر سکتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی دوہری سیاست: عوامی خدمت یا اقتدار کا کھیل؟

پیپلز پارٹی کی موجودہ پوزیشن کو دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ ایک طرف سندھ میں حکومت، دوسری طرف وفاق میں حصہ داری، لیکن زبان میں اپوزیشن کا لہجہ۔ اگر بلاول بھٹو کو واقعی اس منصوبے پر اعتراض ہے تو ان کے پاس اقتدار کی طاقت ہے۔ وہ صدرِ پاکستان سے بات کر سکتے ہیں، سینیٹ میں قرارداد پیش کر سکتے ہیں، قومی اسمبلی میں قانون سازی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک ڈرامہ ہے، عوام کو بیوقوف بنانے کا حربہ۔ سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کو دہائیوں سے ووٹ دے رہے ہیں، لیکن آج بھی وہ پانی، تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی نیا مسئلہ آتا ہے تو صرف بیانات، جلسے اور نعروں سے کام لیا جاتا ہے۔ عمل کہیں نہیں دکھائی دیتا۔

چولستانی عوام کا کیا ہوگا؟

چولستان کی عوام واقعی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کے پاس پانی کی قلت، تعلیم کی کمی اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ لیکن اس منصوبے سے وہ بھی مستفید نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس منصوبے کے تحت پانی ان زمینوں تک پہنچایا جائے گا جو بڑے زمینداروں کی ملکیت میں ہیں، نہ کہ ان چھوٹے کسانوں کے پاس جو واقعی اس کے محتاج ہیں۔

چولستان کے مقامی باسیوں کے پاس نہ زمین ہے، نہ سرمایہ، نہ سیاسی اثر و رسوخ۔ وہ پہلے بھی نظر انداز کیے گئے اور اب بھی یہی ہوگا۔ یہ منصوبہ ان کے لیے نہیں، بلکہ زمین دار طبقے کے لیے بنایا گیا ہے جو پہلے ہی طاقتور ہیں۔ ان کا فائدہ عوامی خیرات نہیں بلکہ سرمایہ کاری کا موقع ہے۔

نتیجہ: کیا سندھ کی آواز سنی جائے گی؟

سندھ کی زمینیں پہلے ہی پانی کی کمی سے خشک ہو رہی ہیں۔ ہر سال تھرپارکر میں قحط کی خبریں آتی ہیں، سکھر اور لاڑکانہ میں کسان احتجاج کرتے ہیں، اور ٹھٹھہ و بدین میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر سندھ کے پانی کو مزید کم کر کے کسی اور علاقے کی زمینوں کو آباد کیا جائے تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟

پیپلز پارٹی کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف اقتدار کے مزے لیتی رہے گی یا واقعی سندھ کے عوام کے لیے آواز اٹھائے گی۔ جلسوں اور بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ورنہ عوام کو یہ ماننے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ سب صرف سیاسی کھیل ہے، جس میں عام عوام ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں