ٹرمپ کا انتباہ: روس یوکرین جنگ کا خاتمہ یا نیا عالمی بحران؟
تحریر: محمد علی خان | www.urdunews360.com
دنیا ایک بار پھر روس اور یوکرین کی جنگ کے ممکنہ نتائج پر نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس نے عالمی سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر روس یا یوکرین میں سے کسی ایک نے بھی جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی، تو امریکہ مذاکراتی عمل سے الگ ہو جائے گا۔
یہ بیان نہ صرف یوکرین کی پوزیشن کے لیے تشویشناک ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
ٹرمپ کا بیان – ایک واضح پیغام
ڈونلڈ ٹرمپ نے اٹلی کی وزیر اعظم جیورجیا میلونی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“ہمیں امید ہے کہ روس اور یوکرین دونوں امن کے لیے سنجیدہ ہوں گے، لیکن اگر کوئی بھی فریق اس میں رکاوٹ بنے گا تو امریکا پیچھے ہٹ جائے گا۔”
یہ بیان عالمی سیاست میں امریکہ کے کردار اور اس کی پالیسیوں میں ممکنہ تبدیلی کا عندیہ دیتا ہے۔ امریکہ ایک عرصے سے یوکرین کو فوجی اور مالی امداد فراہم کرتا آ رہا ہے، مگر اب اس کا لہجہ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔
روس اور یوکرین: جنگ کے تھکے ہوئے فریق
روس اور یوکرین کی جنگ دو سال سے زیادہ عرصے پر محیط ہو چکی ہے۔ ہزاروں لوگ جان سے جا چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں، اور معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں۔ یوکرین کو امریکی اور یورپی امداد پر انحصار ہے، جبکہ روس کو چین اور ایران جیسے ملکوں کی غیر رسمی حمایت حاصل ہے۔
دونوں ممالک اب بھی جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں، مگر دونوں تھکن کا شکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اگر امریکہ پیچھے ہٹ جائے تو؟
یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر امریکہ مذاکرات سے پیچھے ہٹتا ہے تو کیا ہوگا؟
یوکرین تنہا رہ جائے گا: یوکرین کی عسکری طاقت اور حوصلہ امریکی امداد سے ہی قائم ہے۔
روس مزید طاقت حاصل کرے گا: روس کے لیے میدان کھلا ہو جائے گا۔
یورپ پر دباؤ بڑھے گا: یورپی یونین پر مہاجرین، معیشت، اور سلامتی کے مسائل مزید شدت اختیار کریں گے۔
چین اور ایران کا اثر بڑھے گا: عالمی طاقتوں کا توازن مشرق کی طرف جھک سکتا ہے۔
عالمی برادری کی خاموشی؟
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس تنازعے میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر امریکہ بھی پیچھے ہٹ جاتا ہے تو ممکن ہے کہ جنگ مزید طویل ہو جائے اور عالمی سطح پر ایک نیا محاذ کھل جائے۔
پاکستان کا مؤقف اور ممکنہ اثرات
پاکستان نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا ہے، مگر چونکہ پاکستان کا انحصار بھی بڑی عالمی طاقتوں سے تعلقات پر ہے، اس لیے روس-یوکرین جنگ کا اثر بالواسطہ طور پر پاکستانی معیشت، ایندھن کی قیمتوں اور تجارتی پالیسیوں پر بھی پڑتا ہے۔
عوامی ردعمل اور سوشل میڈیا
ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف ردعمل سامنے آئے۔ کچھ نے اسے دانشمندانہ قدم کہا، تو کچھ نے اسے عالمی امن کے لیے خطرناک قرار دیا۔ Twitter/X پر “Trump on Ukraine” اور “Peace Talks” جیسے ہیش ٹیگز ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔
کیا جنگ ختم ہو سکتی ہے؟
یہ سوال اب سب کی زبان پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بڑی طاقتیں سنجیدگی سے مداخلت نہیں کرتیں، اور صرف اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر فیصلہ نہیں لیتیں، تب تک یہ جنگ جاری رہے گی۔
اگر امریکہ واقعی مذاکرات سے نکل جاتا ہے، تو امن کی امیدیں مزید کمزور پڑ سکتی ہیں۔
امن کا وقت یا ایک نئی جنگ کی تیاری؟
روس-یوکرین جنگ اب صرف دو ممالک کا معاملہ نہیں رہا بلکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکہ کا کردار فیصلہ کن ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا بیان عملی جامہ پہنایا اور امریکہ مذاکرات سے واقعی نکل گیا، تو دنیا ایک نئے بحران کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
اب وقت ہے کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں، بالخصوص امریکہ، روس، چین اور یورپی یونین، سنجیدگی سے امن کے لیے کوشش کریں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ نئے مسائل کا آغاز ہے۔
تحریر پسند آئی؟ مزید عالمی تجزیے اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کریں:
www.urdunews360.com