3

ایران اور امریکہ کے جوہری مذاکرات: اعتماد کی دیوار یا مفاہمت کا دروازہ؟

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے حالیہ دنوں میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایران کے لیے جوہری تکنیکی کامیابیوں کا تحفظ ناگزیر ہے اور اس پر کسی قسم کی بات چیت ممکن نہیں۔ ان کا یہ بیان ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی، مذاکرات اور جوہری پروگرام کے خدشات ایک نازک موڑ پر ہیں۔

ایران کا مؤقف: جوہری ترقی ایک قومی حق

ایران ہمیشہ سے یہ مؤقف رکھتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جیسے بجلی کی پیداوار اور طبی تحقیق۔ ایرانی قیادت کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھا۔ لیکن امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو شک ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی بنیاد پر ایران پر سخت معاشی پابندیاں عائد کی گئیں، جنہوں نے ایرانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔

امریکہ کا ردعمل: دباؤ اور مذاکرات کا دوہرا انداز

امریکہ کی پالیسی ہمیشہ سے سختی اور مفاہمت کے درمیان جھولتی رہی ہے۔ 2015ء میں صدر اوباما کے دور میں ہونے والا جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) ایک تاریخی معاہدہ تھا، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر پابندیاں قبول کیں، اور بدلے میں عالمی طاقتوں نے اقتصادی پابندیاں نرم کیں۔ لیکن 2018ء میں صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی، جس سے ایران کے ساتھ اعتماد کا رشتہ ٹوٹ گیا۔

موجودہ صورتِ حال: بات چیت یا بند دروازے؟

ایران اس وقت بھی سنجیدگی سے مذاکرات میں شامل ہونے کا خواہاں ہے، لیکن اس کی شرط یہی ہے کہ امریکہ غیرقانونی پابندیاں قابلِ اعتماد ضمانتوں کے ساتھ مکمل طور پر ہٹائے۔ دوسری جانب، امریکہ کا مؤقف ہے کہ ایران پہلے اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر محدود کرے، تب ہی کسی قسم کی رعایت ممکن ہے۔ اس کشمکش نے مذاکرات کو ایک بار پھر تعطل کا شکار کر دیا ہے۔

کیا ایران جوہری طاقت بن جائے گا؟

یہ سوال اب دنیا بھر کے لیے ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات ناکام رہے تو ایران اپنی جوہری ترقی کو مزید تیز کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہونے کی صورت میں خطے میں عدم استحکام بڑھے گا، اور امریکہ شاید عسکری اقدامات کا راستہ اختیار کرے۔

عالمی امن کے لیے سنجیدہ مکالمہ ضروری

ایران اور امریکہ دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ، پابندیاں اور دھمکیاں کبھی دیرپا حل نہیں ہوتیں۔ جوہری مسئلہ صرف سفارت کاری، اعتماد سازی اور حقیقی مکالمے سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ اگر دونوں فریق اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر عالمی امن کو ترجیح دیں، تو ایک نیا، پرامن باب لکھا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں