5

افغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی گمشدگی: طالبان، اسمگلنگ اور عالمی خطرات کا جائزہ

افغانستان میں 2021 میں طالبان کے دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے لے کر اب تک دنیا کے کئی حلقوں میں اس سوال پر تشویش پائی جاتی ہے کہ امریکی فوج کے چھوڑے گئے مہنگے اور جدید ہتھیاروں کا آخر کیا بنا؟ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی تازہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریباً پانچ لاکھ امریکی ہتھیار ضائع ہو چکے ہیں، فروخت کیے جا چکے ہیں یا عسکریت پسند گروہوں کو اسمگل کر دیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ نے نہ صرف علاقائی سلامتی بلکہ عالمی سطح پر بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ اور ذرائع کا انکشاف:
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے باخبر ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ امریکی فوج کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کا ایک بڑا حصہ یا تو تباہ ہو چکا ہے، یا اسے طالبان نے مختلف ذرائع سے فروخت کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں ایک سابق افغان اہلکار کے بیان کو شامل کیا گیا ہے، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تقریباً 10 لاکھ ہتھیاروں، بکتر بند گاڑیوں، نائٹ ویژن آلات، ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور دیگر فوجی ساز و سامان کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

طالبان حکومت کا مؤقف:
اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرات نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت ہتھیاروں کی حفاظت کو انتہائی سنجیدگی سے لیتی ہے اور تمام ہلکے اور بھاری ہتھیار محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ یا تباہی کے الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد صرف طالبان حکومت کو بدنام کرنا ہے۔

اسمگلنگ کے الزامات اور علاقائی خطرات:
کئی بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اسلحے کی اسمگلنگ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ہتھیار خطے میں سرگرم دیگر عسکریت پسند گروہوں جیسے داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان (TTP)، اور ازبک جنگجو گروہوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیا، ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بھی ان ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں، جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔

امریکہ نے ہتھیار کیوں چھوڑے؟
جب امریکہ نے 2021 میں اچانک افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا تو اسے شدید وقت کی قلت، زمینی حالات کی غیر یقینی صورتحال اور افغان حکومت کی تیزی سے شکست کا سامنا تھا۔ امریکی افواج نے بعض ہتھیار تباہ کیے، لیکن اکثریت وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اس فیصلے کے پیچھے تین بڑی وجوہات تھیں:

1. تیزی سے انخلا کی ضرورت:
طالبان کی برق رفتاری اور افغان فوج کی پسپائی کے باعث امریکہ کو فوری انخلا کرنا پڑا۔ ہتھیاروں کو واپس لانے یا تباہ کرنے کا وقت نہ مل سکا۔

2. اخراجات میں کمی:
امریکہ نے پہلے ہی افغانستان پر کھربوں ڈالر خرچ کر دیے تھے۔ ہتھیاروں کو واپس لے جانا ایک مہنگا اور طویل عمل ہوتا، جو ممکن نہ ہو سکا۔

3. غلط اندازے:
امریکی پالیسی سازوں نے افغان حکومت کی پائیداری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، لیکن طالبان نے چند ہی ہفتوں میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا۔

عالمی ردِعمل اور سوالات:
اس معاملے پر اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں خاموش ہیں، لیکن تجزیہ کار سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا امریکہ نے دنیا کے ایک غیر مستحکم ترین خطے میں ہتھیاروں کا ڈھیر چھوڑ کر ایک نئی جنگ کا بیج بویا ہے؟

پاکستان کا خدشہ:
پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی رپورٹس کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ برسوں میں جدید اسلحہ استعمال کرنا شروع کیا ہے، جو غالباً امریکی چھوڑے گئے ہتھیاروں میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے براہ راست خطرہ بن چکی ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں۔

طالبان کے لیے اندرونی چیلنجز:
طالبان حکومت کو ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے کئی اندرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے، جن میں بدعنوانی، مقامی کمانڈروں کی خودمختاری، اور عسکریت پسندوں سے گٹھ جوڑ شامل ہیں۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ بعض ہتھیار اندرونِ ملک غیر ریاستی عناصر کے پاس چلے گئے ہیں، جو طالبان کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ ہیں۔

امریکہ کے انخلا کے بعد چھوڑے گئے مہنگے اور مہلک ہتھیار صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی علامت بن چکے ہیں۔ طالبان کی جانب سے کیے گئے دعوے اپنی جگہ، لیکن آزاد ذرائع سے ان کی تصدیق مشکل ہے۔ اگر ان ہتھیاروں کا استعمال دہشت گرد حملوں یا خانہ جنگی میں ہوا، تو اس کے نتائج صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں