راشن کارڈ یا خود انحصاری؟ – پاکستانی عوام کو کب ملے گا آئینی وقار؟
یکم مئی کو پنجاب حکومت کی جانب سے ساڑھے 12 لاکھ افراد میں راشن کارڈ تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس منصوبے کو کچن کے اخراجات میں مدد دینے والا ایک “خیر سگالی اقدام” قرار دیا ہے۔ بلا شبہ یہ اقدام غریب طبقے کے لیے وقتی ریلیف کا ذریعہ ہو سکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات دیرپا ہیں؟ کیا یہ پاکستانی عوام کو اصل میں بااختیار بناتے ہیں یا صرف وقتی ریلیف دے کر ان کی محرومیوں پر پردہ ڈالتے ہیں؟
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانی معیشت ایک طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، صنعتی زوال، صحت و تعلیم کی ابتر صورتحال، اور رہائش کے بحران نے عام شہری کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے راشن کارڈ، لنگر خانے، احساس پروگرام، یا مفت آٹا اسکیم جیسے اقدامات ضرور وقتی تسلی کا باعث ہو سکتے ہیں، مگر یہ پائیدار حل نہیں۔ یہ صرف ظاہری “کاؤسمیٹک” انتظامات ہیں جو عوام کی اصل ضروریات کو نظر انداز کرتے ہیں۔
کچن کے اخراجات یا باعزت روزگار؟
اگر حکومت واقعی عوام کے مسائل کا حل چاہتی ہے تو راشن کارڈز بانٹنے کے بجائے ایسے منصوبوں پر توجہ دے جن سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ پنجاب ایک زرخیز خطہ ہے جہاں صنعت، زراعت، سیاحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ اگر حکومت چاہے تو سرمایہ کاری کو فروغ دے کر اور نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر لاکھوں افراد کو باعزت روزگار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وژن، عزم اور مستقل مزاجی درکار ہے، جو بدقسمتی سے ہماری پالیسیوں میں ناپید ہے۔
راشن کارڈ سے عزت نہیں ملتی
کیا کبھی کسی باوقار قوم کے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کی جگہ راشن کارڈ دیے جاتے ہیں؟ کیا آئین نے ہر شہری کو تعلیم، صحت، روزگار، اور رہائش کا حق نہیں دیا؟ تو پھر ہماری حکومتیں کیوں عوام کو ان کے آئینی حقوق کی جگہ خیرات دیتی ہیں؟ یہ رویہ عوام کو محتاج بنانے اور حکمرانوں پر انحصار کرنے کی تربیت دیتا ہے، جس سے قوم خود انحصاری کی بجائے غلامی کی جانب بڑھتی ہے۔
آئینی حق چاہیے، خیرات نہیں
ہر ووٹر کا حق ہے کہ اس کو اس کا آئینی وقار ملے۔ راشن کارڈ دینے سے پہلے ان لوگوں کے ووٹ کی عزت کریں۔ ان کو بااختیار بنائیں، ان کی آواز سنیں، ان کے مسائل حل کریں۔ وہ صرف آٹا، چینی، گھی نہیں چاہتے، وہ عزت، انصاف، تحفظ اور ترقی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ کسی اسپتال میں بغیر سفارش کے علاج کرا سکے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اسکول میں تعلیم ملے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا ایک باوقار ملازمت حاصل کرے۔
یہ وقتی سکیمیں کب تک؟
یہ سچ ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں فلاحی منصوبے چلاتی ہیں، مگر وہ صرف وقتی مدد کے لیے ہوتے ہیں، مستقل پالیسی نہیں بنتے۔ اصل ترقی وہی ہے جو عوام کو خود کفیل بنائے، جو صنعت کو ترقی دے، جو تعلیم اور صحت کے نظام کو بہتر کرے، جو شہریوں کے لیے ایک محفوظ اور خوشحال ماحول فراہم کرے۔
اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اسے راشن کارڈ کے ساتھ ساتھ ایک معاشی وژن بھی دینا ہوگا، جس میں غریب کو اوپر اٹھانے کا پلان ہو، نہ کہ اس کو ہمیشہ نیچے رکھ کر راشن بانٹنے کی روایت کو زندہ رکھا جائے۔
نتیجہ: ایک فیصلہ کن سمت کی ضرورت
پنجاب حکومت کا راشن کارڈ پروگرام وقتی ریلیف کے لیے قابلِ ستائش ہو سکتا ہے، مگر اگر ہم ایک باوقار اور خودمختار قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کلچر سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے شہریوں کو صرف کھانے کے لیے نہیں، جینے کے لیے حق دینا ہوگا۔ عزت، خود مختاری، تعلیم، صحت اور روزگار—یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر ایک ترقی یافتہ قوم کھڑی ہوتی ہے۔ راشن کارڈ نہیں، ہمیں عزت دار مستقبل چاہیے۔