26

کومل جوئیہ کی خوبصورت غزل

اداسی ، رنج ، اذیت ، خسارے آجائیں
ہے جن سے گہرا تعلق وہ سارے آجائیں

تم اپنے اشک گراؤ مری ہتھیلی پر
مبادا پاؤں کے نیچے یہ تارے آجائیں

جو نیم جان تھے ، بے جان ہوگئے سو اُنہیں
ذرا سا موج اچھالے ، کنارے آ جائیں

کسی طرح تو یہ سکراتِ ہجر ٹوٹے بھی
اٹھا کے رحل ، وظیفے ، سپارے آ جائیں

لگے بندھے ہوئے مصرعے بدل سکوں اے کاش
خدایا ذہن میں کچھ استعارے آ جائیں

میں عشق کر کے بھی زندہ ہوں ، دیکھنے کے لیے
یہ ششدران ، یہ حیرت کے مارے ، آ جائیں

پناہ چاہئیے ؟ دی جان کی امان ، سو آپ
بلا جھجھک یہاں ، دل میں ہمارے آ جائیں

میں ایک پیڑ ہوں کہنے کی دیر ہے کومل
سبھی کے ہاتھوں میں کلہاڑے ، آرے آجائیں

کومل جوئیہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں