اداسی ، رنج ، اذیت ، خسارے آجائیں
ہے جن سے گہرا تعلق وہ سارے آجائیں
تم اپنے اشک گراؤ مری ہتھیلی پر
مبادا پاؤں کے نیچے یہ تارے آجائیں
جو نیم جان تھے ، بے جان ہوگئے سو اُنہیں
ذرا سا موج اچھالے ، کنارے آ جائیں
کسی طرح تو یہ سکراتِ ہجر ٹوٹے بھی
اٹھا کے رحل ، وظیفے ، سپارے آ جائیں
لگے بندھے ہوئے مصرعے بدل سکوں اے کاش
خدایا ذہن میں کچھ استعارے آ جائیں
میں عشق کر کے بھی زندہ ہوں ، دیکھنے کے لیے
یہ ششدران ، یہ حیرت کے مارے ، آ جائیں
پناہ چاہئیے ؟ دی جان کی امان ، سو آپ
بلا جھجھک یہاں ، دل میں ہمارے آ جائیں
میں ایک پیڑ ہوں کہنے کی دیر ہے کومل
سبھی کے ہاتھوں میں کلہاڑے ، آرے آجائیں
کومل جوئیہ