پاکستان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی کارکردگی اور اسٹیبلشمنٹ کے ان کے بارے میں خیالات کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت میں کئی اہم فیصلے کیے گئے ہیں، جن میں معاشی بحران کو قابو پانے کی کوششیں اور آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کی کوششیں شامل ہیں۔ تاہم، ان کی حکومت کو عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا رہا ہے، خاص طور پر مہنگائی اور اقتصادی مشکلات کے حوالے سے۔ عوام کی زندگیوں پر اثرات اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کی حکومت نے میڈیا کی آزادی پر پابندیاں بھی لگائیں، جیسے کہ سوشل میڈیا پر نگرانی اور بلاک کرنے کی کوششیں، جس پر عوام اور عالمی سطح پر تنقید کی گئی۔
جہاں تک بلاول بھٹو اور محسن نقوی کے وزیرِ اعظم بننے کے امکانات کا سوال ہے، تو اس پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے طور پر ان کی مقبولیت مخصوص حلقوں میں مضبوط ہے، مگر ان کے لیے ملک کی سیاسی سطح پر اکثریت حاصل کرنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے، خاص طور پر موجودہ سیاسی صورتحال میں۔ محسن نقوی کا نام اس لیے اُبھرتا ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں، لیکن ان کا کردار زیادہ تر عبوری حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جڑا ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی صورتحال اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی روشنی میں، مستقبل میں وزیرِ اعظم کے طور پر کسی دوسرے شخص کا انتخاب ان عوامل پر منحصر ہو گا جو عوامی حمایت اور اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کے درمیان توازن پیدا کریں۔ اس کا فیصلہ آنے والے انتخابات اور سیاسی ڈائنامکس کے مطابق کیا جائے گا۔