19

دیس ہوا پردیس۔

دیس ہوا پردیس
دیس ہوا پردیس۔

دیوار پر لگی گھڑی کی ٹک ٹک، جیسے وقت کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہو۔ دروازہ آہستگی سے کھلا، اور اندر قدم رکھنے والے بوڑھے شخص کو کوئی گلے لگانے والا نہ تھا۔ یہ ضمیر تھا، جس نے اپنی ساری جوانی پردیس کی دھول میں دفن کر دی تھی۔ وہ شخص، جس نے اپنے پیاروں کے خواب خریدنے کے لیے اپنے خواب قربان کیے تھے۔

ضمیر کے قدموں کی چاپ گھر کے سکوت کو چیرتی رہی، لیکن کمرے سے جھانکتی بیوی نے نگاہوں میں بے نیازی سجائے کہا، “یہاں رہنے آئے ہو یا پھر کچھ دنوں کی چھٹی پر ہو؟”
یہ جملہ کانوں میں پگھلے سیسے کی طرح اترا، مگر ضمیر مسکرا دیا، جیسے کوئی زخمی چراغ ہوا کے تھپیڑوں کے سامنے جلنے کی اداکاری کرے۔

بیٹے نے نگاہیں جھکا کر کہا، “بابا، آپ آرام کریں، میں مصروف ہوں۔”
بچی نے صرف اتنا پوچھا، “اب کب جاؤ گے واپس؟”

ضمیر کا دل ٹوٹا نہیں، کیونکہ جو برسوں پہلے پردیس میں چھوڑا تھا، وہ دل تو کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ بس وہ دھڑکنیں تھیں جو چلتی جا رہی تھیں، جیسے کوئی زبردستی زندہ رکھ رہا ہو۔

شام کو بہن ملی تو کہا، “بھائی، اچھا ہے تم واپس چلے جاؤ، یہاں سب ٹھیک ہے۔ ہمیں بس تمہاری کمائی چاہیے، محبت تو وہیں رہ گئی جہاں تم چھوڑ آئے تھے۔”

ضمیر کو یاد آیا جب وہ پردیس جانے سے پہلے جوان تھا، خوابوں سے لبریز، ہاتھوں میں بیوی کا ہاتھ تھا، آنکھوں میں محبت کی چمک۔ وعدہ کیا تھا کہ جلد واپس آ جائے گا، مگر وقت کی دھول نے وعدوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا۔ پیچھے صرف پیسے آتے رہے، اور سامنے سے مطالبے۔

ایک رات جب تنہائی اور غم نے ضمیر کو بے حال کر دیا تو اس نے سوچا کہ شاید یہی زندگی کا آخری کنارہ ہے۔ اس نے اپنی بیوی کو بلایا، بچوں کو قریب کیا، مگر سب کے چہرے پر اجنبیت کی دھند تھی۔
ضمیر نے آخری بار کہا، “میں تو سمجھا تھا کہ میری محبت تمہیں خرید لے گی، لیکن محبت شاید پردیس میں ہی مر گئی تھی۔”

صبح ہوئی تو ضمیر اپنے بستر پر ابدی نیند سو رہا تھا۔ کسی نے آنکھ سے آنسو نہ بہایا، سب کے لب پر وہی سوال تھا: “کفن کا خرچ کس سے لیا جائے؟”

ا

زندگی نے ضمیر کو پردیس میں دفن کیا، اور موت نے اس کے گھر میں۔ محبت نہ وطن میں ملی، نہ پردیس میں۔

علی سالار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں