مادی دنیا، روحانی دنیا اور جدید سائنس:
۔
غیر مادی چیزوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے غیر مادی دنیا تک رسائی ضروری ہے، جس طرح “دی میٹرکس” فلم میں مارفیئس ہیرو سے کہتا ہے کہ بدقسمتی سے میٹرکس کیا ہے، یہ کسی کو سمجھایا نہیں جا سکتا، اسے تمہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا. اس کی مثال دو طرح سے دی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی پیدائشی طور پر نابینا پیدا ہوا ہو تو اسے ہم کسی طریقے سے نہیں سمجھا سکتے کہ سبز رنگ کیسا ہوتا ہے اور سرخ رنگ کیسا ہوتا ہے اور دونوں رنگوں میں کیا فرق ہے، کیونکہ اس نے رنگوں کی دنیا میں آنکھ کھولی ہی نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اللّہ تعالیٰ نے جنت کی خصوصیات بتائیں تو فرمایا کہ وہاں ایسی نعمتیں ملیں گی جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی دل میں ان کا خیال گزرا۔ اب آنکھ سے نہ دیکھنا، اور کانوں سے نہ سننا تو سمجھ میں آتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا خیال بھی نہ آئے یعنی انہیں انسان اپنی سوچ اور گمان میں بھی نہ لا سکے؟ اور اسلام کیونکہ قیامت تک کے لئے ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قیامت تک ایسی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہو سکے گی جو جنت کی نعمتوں کو دکھا، سنا یا سمجھا سکے، کیونکہ ہمیں انہیں سمجھنے کے لئے، ان کے ادراک کے لئے حواس بھی جنت والے چاہئیں جو اس دنیا میں ممکن نہیں ہیں۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ بغیر دیکھے ایمان لے آؤ، یؤمنون بالغیب۔ انسان کیونکہ اس دنیا کے حواس سے واقف تھا، اس لئے اللّٰہ پاک نے بھی دنیا کی نعمتوں سے مثال دے دی کہ جنت میں بھی اس طرح کے پھل ہوں گے، شہد اور دودھ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ دنیا کے حواس اور جنت کے حواس میں کیا فرق ہے، اسے سمجھنے کے لئے بھی کم از کم ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے، اگر ممکن ہوا تو اس کی وضاحت ایک الگ مضمون میں کی جائے گی۔
انسانوں کی ساخت نہایت پیچیدہ ہوتی ہے۔ مادی طور پر ابھی تک سائنس دان ڈی این اے کے کوڈ کو بھی ابھی تک مکمل نہیں سمجھ پائے تو جو ڈی این اے کے ایٹموں کے کوارکس ہیں اور پھر ان کی جو انرجی ہے، اس کی نوعیت کیسی ہے، یہ کہ منفی یا مثبت انرجی میں کیا فرق ہے، یہ سب اتنی آسانی سے ہم کیسے سمجھ لیں گے؟
انسانی وجود صرف روح اور جسم کا ہی مرکب نہیں بلکہ اس میں دو وجود اور بھی ہیں، ایک نفس اور دوسرا ہمزاد۔ جب انسان اپنی روح کو اللّہ کے ذکر سے، ریاضت اور مجاہدے سے ترقی دینا شروع کرتا ہے تو اس کے نفس کے مراتب بھی ترقی کرنے لگتے ہیں، جس کی مختلف علامات ہوتی ہیں. نفس کے علاوہ ایک اور وجود ہمزاد ہوتا ہے، جس کے مختلف نام ہیں۔ قرین، اورا، جسم مثالی، ہمزاد اور شیطان کے ناموں سے جانا جانے والا یہ مخفی وجود انسان کے ساتھ قبر تک ساتھ رہتا ہے۔ عملیات کی دنیا میں جو عامل اپنے ہمزاد کو تسخیر کر لیتے ہیں وہ بھی بڑے بڑے محیر العقول کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں تو پھر جو مسلمان اپنی روح کو طاقتور بنا لے تو وہ کیا کیا کر سکتا ہے، اس کا شمار ممکن نہیں۔
سائنس کی زیادہ تر ریسرچ مادی اشیاء پر ہوئی ہے، حالانکہ سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کائنات میں غیر مادی اشیاء کی تعداد مادی اشیاء سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنسی تحقیق وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی بھی رہتی ہے اور کبھی مکمل الٹ بھی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے صرف “میٹر” کا نظریہ تھا، پھر “اینٹی میٹر” کا آیا، پہلے صرف “انرجی” کا آیا، پھر “ڈارک انرجی” کا آیا، پہلے صرف “ایک یونیورس” کا نظریہ آیا، پھر “ملٹی یونیورس” اور “پیرلل یونیورس” کا آیا، تو جو سائنس دان اپنی ساری زندگی مادہ کی ریسرچ میں لگا لیتے ہیں، وہ بھی مادہ کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے، تو ہم جنہوں نے غیر مادی اشیاء پر ذرا برابر بھی ریسرچ نہیں کی، ہم غیر مادی اشیاء کے وجود، خصوصیات اور اثر پذیری کے انکار کرنے میں اتنی جلدی کیوں کر لیتے ہیں؟ اگر مادہ پر ریسرچ کرنے والوں کی ہمارے دل میں اہمیت اور قدر ہے تو غیر مادی اور روحانی سکالرز سے ہمیں اتنی نفرت کیوں ہے؟ اگر مادہ پر ریسرچ کرنے والوں کی باتوں کو ہم بغیر ثبوت دیکھے مان لیتے ہیں تو غیر مادی اشیاء پر ریسرچ کرنے والوں سے ہم ثبوت کیوں مانگتے ہیں؟
جس طرح مادے کی حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے لئے خوردبین اور الیکٹرانک خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے، بالکل اسی طرح غیر مادی اشیاء کے مشاہدے کے لئے بھی کچھ ٹولز کی ضرورت ہوتی ہے، جس طرح خوردبین سے نظر آنے والی چیزوں کو سمجھنے کے لئے بیالوجی کا مخصوص علم ہونا ضروری ہے، بالکل اسی طرح غیر مادی اور روحانی چیزوں کو دیکھ کر بھی ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا، اس کے لئے بھی مخصوص روحانی علم ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم مادی آلات سے مادے کی ساخت کا مطالعہ کرنے والوں کی کہی ہوئی باتوں کا انکار نہیں کرتے تو ہمیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ ہم غیر مادی اشیاء یا روحانی چیزوں پر ریسرچ کرنے والوں کا مذاق اڑائیں۔
غیرمادی یا روحانی چیزیں کیونکہ مادی چیزوں سے بالکل مختلف ہیں، اس لئے انہیں سمجھنے کے لئے مادی سمجھ بوجھ سے مختلف دماغ چاہیے۔ اس لئے امام غزالی جب فقہی اور شرعی علوم کی تکمیل کے بعد روحانی علوم حاصل کرنے کے لئے ابوبکر شبلی کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ جو علم آپ حاصل کر چکے ہیں، اس میں “علم” پہلے آتا ہے، “عمل” بعد میں کیا جاتا ہے، لیکن جو علم آپ سیکھنے آئے ہیں، اس میں “عمل” پہلے کیا جاتا ہے اور “علم” بعد میں آتا ہے، اگر آپ عمل کر سکتے ہیں تو وہ علم آپ کو حاصل ہو جائے گا. امام غزالی نے کیا عمل کیا، کون سا علم ان کے پاس آیا اور وہ علم حاصل کرنے کے بعد امام غزالی نے کیا فرمایا، اس کی تفصیل طوالت کا باعث ہے۔
جس طرح جنت نورانی دنیا کی ہے، اس کا مکمل ادراک اس مادی دنیا میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا مگر کیونکہ اس سے رغبت دلانے کے لئے دنیا کی زندگی سے مثالیں دی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح روحانی دنیا کا مکمل ادراک ممکن نہیں مگر اسے سمجھانے کے لئے سائنسی تحقیق اور ایجادات سے مثالیں دی جاتی ہیں۔ اب مثالیں جس دور میں جتنی ترقی ہوئی ہوگی اسی کے مطابق ہی دی جائیں گی ناں، یعنی جب تک ایٹم دریافت ہوئے تھے، ایٹم کی مثالیں دی جاتی رہیں اور اب جب ایٹم سے آگے کی دریافت ہو چکی ہے تو وہ مثالیں دی جا رہی ہیں۔ روحانی علوم کی مکمل سمجھ اس وقت آتی ہے جب انسان روحانی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ دنیا کے حواس کے ذریعے روحانی دنیا کا مشاہدہ ممکن نہیں، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کے روحانی سفر پر لے جایا گیا تو جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کو سینہ اطہر سے نکال کر صاف کیا اور پھر جسم اطہر میں واپس رکھ دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب عام انسان روحانی دنیا کا مشاہدہ کرنا چاہے تو اسے اپنے قلب و باطن کو کس قدر صاف کرنا پڑے گا۔ اسی قلبی صفائی اور ریاضت و مجاہدے کے لئے صوفیاء نے چلہ کشی کی۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کی روحانیت کہاں تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قلبی کیفیات ہوتی ہیں جن کا مشاہدہ اس زمانے میں اللّٰه کے رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہوتا تھا اور صحابہ کرام کو بھی۔ وہ زمانہ کیونکہ اسلام کا ابتدائی دور تھا، اس لئے روحانیت کے حصول کے لئےنماز، روزہ یا دیگر فرائض و واجبات کے علاوہ الگ سے خصوصی ریاضت اور مجاہدے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور اللّہ کے انوار رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست صحابہ کرام کے قلوب کو منتقل ہو جاتے تھے جو قلبی صفائی کے ساتھ ساتھ روحانی مشاہدات کا باعث بھی بنتے تھے۔ جوں جوں دور گزرتا گیا، شیاطین کے وساوس اور منفی قوتیں زیادہ ہوتی گئیں، اسی لئے صوفیاء اور اولیاء نے وہی قلبی کیفیات اور مشاہدات دوبارہ حاصل کرنے کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کچھ ایسی مشقیں ایجاد کیں جنہیں ذکر اور مراقبہ وغیرہ کے مختلف نام دیئے گئے۔۔
۔
(تحریر: یونس مسعود)