19

پنڈی گھیب کی تاریخ۔

#پنڈی_گھیب
پنڈی گھیب صوبہ پنجاب کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ راولپنڈی سے 110 کلومیٹر اور اٹک سے 102 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ڈھلیاں چوک پنڈی گھیب سے 10 کلومیٹر اور تلہ گنگ سے 47 کلومیٹر دور ہے۔
تحصیل پنڈی کے مشرق میں تحصیل فتح جنگ تحصیل، مغرب میں تحصیل جنڈ، شمال میں اٹک اور جنوب میں تلہ گنگ، ضلع چکوال واقع ہے۔

تحصیل پنڈی گھیب 13 یونین کونسل پرمشتمل ہے۔
پنڈی گھیب غربی، پنڈی گھیب شرقی ،
میراشریف ،ملہوالی ،چکی ،دندی ،کھڑپہ ،
میانوالہ ،اخلاص،غریبوال،کھوڑ،احمدال،کمڑیال

پنڈی گھیب کو 1904 میں ضلع اٹک کے تحصیل ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیا گیا تھا۔

تاریخی طور پر نام پنڈ گھیب دو الفاظ کا مرکب ہے “پنڈ” کا مطلب گاؤں اور “گھیب” ہے جو مغل سردار خاندان کے رائل گھیبہ قبیلے کے آباؤ اجداد گھیبہ خان سے ماخوذ ہے جو 16ویں صدی میں ظہیر الدین بابر کے ساتھ یہاں آکر آباد ہوا تھا۔
گھیبہ قوم جو ان علاقوں پر حکومت کرتی رہی ہے۔ اسی نسبت سے پنڈی گھیب شہر کا نام بھی پڑا، اسی نسبت سے اس کو گھیبی لہجہ کا نام دیا گيا ہے۔ اس علاقے کے لوگ خود اسے پوٹھوہاری لہجہ ہی بولتے ہیں۔ لیکن اس میں اور گھیبی لہجے میں واضح فرق پائے جاتے ہیں۔
یہ پنجابی زبان کی ایک شاخ یا لہجہ، یہ لہجہ کافی حد تک پوٹھوہاری سے ملتا جلتا ہے لیکن اس کے جملے زیادہ سلیس ہوتے ہیں۔ مثال کہ طور پر ماضی فقرے کے آخِر میں اہے+سابقہ بولا جاتا ہے مثلاً میں اہے یاں مطلب میں تھا اس کے علاوہ یہ لفظ وِنجنا جانا یا گچنا کی جگہ استعمال کرتا ہے۔ یہ لہجہ زیادہ تر تحصیل فتح جنگ اور تحصیل پنڈی گھیب میں بولا جاتا ہے۔میانوالی میں بولا جانے والا لہجہ آوانکاری بھی گھیبی سے کافی حدتک مماثلت رکھتا ہے۔
پنڈی گھیب میں قدیم دور کے ایسے آثار پائے گے ہیں جن ميں قبرستان بھی شامل ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی بستیاں بھی قدیم دور سے چلی آ رہی ہیں۔ اس علاقہ میں پتھر کے زمانے کے آثار بھی موجود ہیں “گاربٹ” جو برطانوی عہد میں اٹک کا ڈپٹی کمشنر تھا، اس نے “اٹک گزیٹر” میں تحریر کیا ہے کہ یہاں پر پتھر کے زمانے کے انسانوں کی ہڈیوں کا ڈھانچہ ملا ہے جو فرانس سے ملنے والے ڈھانچے سے مماثلت رکھتا ہے۔ لوہے کے ابتداہی زمانے کے آثار تو بے شمار ملتے ہیں میرا شریف جو پنڈی گھیب سے چند میل مغرب کی جانب ہے اس کے قریب بدھ مت کے دور کا ایک کنواں بھی ملا ہے جس کا اوپر کا حصہ چوکور ہے وہاں سے پتھر پر لکھی ہوئی ایک تحریر ملی تھی جو لاہور عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے۔

تحصیل پنڈی گھیب اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’ریاست پنڈی گھیب“ کہلاتی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی ریاست تھی۔ جو نہ صرف یہ کہ ایک وسیع علاقہ پر محیط تھی بلکہ اردگرد کی ریاستوں اور علاقوں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ شمال کی جانب اس کا احاطہ کالا چٹا تک تھا اور کالا چٹا پہاڑ اس کی قدرتی سرحد تھی۔ موضع باہتر اور فتح جنگ اس ریاست کا حصہ تھے۔ مشرق کی طرف اس کی سرحد چونترہ تک تھی اور اس سے آگے راولپنڈی کا ضلع شروع ہوتا تھا۔ جب کے جنوب مشرق میں چکوال کا بیشتر حصہ ریاست پنڈی گھیب میں شامل تھا۔ کلر کہار، بلکسر، مواضعات اسی ریاست پنڈی گھیب کا حصہ تھیں۔ جنوب میں وادی سون کے موضع کھبکی تک جاتی تھی جنوب مغرب میں موجود تلہ گنگ کے مواضعات لاوہ، دھندہ شاہ بلاول، کوٹ گلہ بھی ریاست پنڈی گھیب کا حصہ تھے۔ مغرب میں جنڈ، تراپ اور جنوب مغرب میں موضع ناڑہ ریاست پنڈی گھیب کا حصہ تھے۔
شروع شروع میں پنڈی گھیب کے علاقے میں قبائلی ریاست تھی اور مختلف قبیلوں کے سردار مغل بادشاہ بابر کے حملہ آوروں کو گھوڑوں اور بازوں کے تحفے بھیج کر اپنے اوپر مہربان رکھتے اور ان کے حملوں سے بچے رہتے۔ قابل ذکر قبیلہ جو یہاں سب سے پہلے ظاہر ہوا جنجوعہ تھا۔ یہ لوگ کب اور کہاں سے آئے تاریخ اس بارے میں خاموش ہے نہ ہی ان کی ریاست کا پتہ چلتا ہے۔ “بابر” نے اپنی “تزک” میں لکھا ہے کہ یہ یہاں بڑے پرانے زمانے سے حکمران رہے ہیں۔ جنجوعوں کی طاقت پر جن لوگوں نے ضرب لگائی وہ کھٹڑ تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے ابتدائی دور میں یہاں آئے اس کے بعد اعوان قبائل، جودڑے اور گھیبے یہاں آئے اور انھوں نے یہاں اپنی عمل داریاں قائم کیں اس زمانے میں یہ مختلف قبائل آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور کوئی قبیلہ بھی مستحکم حکومت نہ قائم کر سکا۔
سلاطین دہلی اور مغلوں کے ابتدائی دور میں بھی پنڈی گھیب کے قبائل ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہے۔ اور تھوڑے تھوڑے وقت کے لیے حکومت کی 1519 میں جب شہنشاہ بابر بھیرہ سے کابل واپسی پر اس علاقے سے گذرا تو پنڈی گھیب شہر جس جگہ اب واقع ہے، یہاں آباد نہ تھا بلکہ موجودہ شہر کے شمال میں دریائے سواں کے کنارے آبادی تھی بابر اپنی تزک میں لکھتا ہے
”سواں ندی پار کر کے ہم نے “اندرانہ” ایک بستی میں پڑاؤ کیا جو ملک ہست خان کے والد کی جاگیر ہے اور اب برباد ہے“

پنڈی گھیب کی سب سے بڑی خوبی یہ ڈھلوانی ہونے کی وجہ سے بڑا صاف ستھرا شہر ہے بہت پُر سکون ہے سب لوگ آپس میں پیار محبت سے رہتے ہیں پورے شہر کے لوگ تقریباَ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں
پورے شہر میں کبھی کوئی ناخوشگوار واقع نہیں ہوا اگر کوئى ہو جائے تو پورا شہر پریشان ہوتا ہے
گُھڑ سواری، داندوں کی ریس اور انکی ثقافت بڑید دلچسپ ہے مُرغا بٹیر کی لڑائی بھی ان کا مشغلہ ہے
سرشام مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں جو اس بات کا ٹبوت ہے کہ یہ لوگ غیرت مند ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں