19

محب وطن اور سیز کے نام

محب وطن اووسیز کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلف اور افریقہ کے ریگزاروں سے لیکر یورپ اور امریکہ کے برف زاروں تک، چڑھتے سور ج کی سرزمین جاپان سے لیکر خوبصورت جزیروں کے دیس اسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ایک کروڑ محب وطن پاکستانی ملکی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔ مگر اوورسیز کی خون پسینے کی کمائی کا پیسہ ملکی معیشت پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں کرتا۔ جسکی 3 بڑی وجوہات ہیں ۔
یہ پیسہ عموما پاکستان میں 3 بڑے سیکٹرز پر تقسیم ہوتا ہے۔
1۔ خاندان
2۔ چیرٹی ویلفیئر
3۔ انویسٹمنٹ
خاندان:-
بیرون ملک رہنے والا ایک فرد عموما ایک سے زائد خاندانوں کی کفالت کر رہا ہوتا ہے۔ یوں ایک طرف تو اسکے عزیز و اقربا محنت و مشقت کو ترک کے کے کئی طرح کی جھوٹی سچی کہانیاں گھڑ کے اس پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔ دوسری طرف اسکے مال کو لوٹ کا مال سمجھ کر بے جا فضول نمود و نمائش میں ضائع کرتے رہتے ہیں۔ یوں اسکا قیمتی پیسہ ملک کی معیشت میں کوئی اثرات مرتب نہیں کر سکتا بلکہ کئی معاشرتی ناہمواریوں اور جرائم کا باعث بنتا ہے۔
2۔ چیرٹی:-
چیرٹی اچھا کام ہے نیک کام ہے کرنا چاہیئے۔ مگر یہ کام اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر نہیں کرنا چاہیئے۔ ہمارے اورسیز خاص طور پر ویلفیئر سوسائیٹیوں، مدرسوں، وائیٹ کالر مانگتوں بلکہ مانگتوں کی تمام تر اقسام کا آسان ترین ہدف ہوتے ہیں۔ انکا بے شمار پیسہ non productive, non developmentalاور sustainablty سے قوسوں دور نمود ونمائش پر مبنی ویلفیئر پرجیکٹس پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جس سے ان سوسائیٹیوں کے EDs, مہتمم، عہدے داران اور انکے اقرباء تو آسائش بلکہ عیش و نشاط کے مرتبے پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ معاشرہ برکات سے محروم رہتا ہے ۔ معیشت کی گروتھ پر اس پیسے کا کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا۔ نہ غربت کم ہوتی ہے، نہ تعلیم عام ہوتی ہے، نہ معاشرہ دینی اقدار پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
3-ڈیڈ انویسٹمنٹ
نئے نئے انویسٹمنٹ کنسلٹینٹس اور دل لبھاتے اشتہارات سے متاثر ہو کر ریئل اسٹیٹ کے میگا پروجیکٹس میں انویسٹمنٹ بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ یہ میگا پروجیکٹس بد نیتی پر مبنی مافیا کا ایک جال ہے۔ جو اورسیز کی انویسٹمنٹ کے پاکستان کی اکانومی پر اثرات نہیں پڑنے دیتا۔ ایک تو یہ پرو جیکٹ عشروں تکمیل نہیں ہو پاتے دوسرے اور سیل کی وجہ سے عموما انویسٹر کو فائدہ نہیں ہوتا۔
بد ترین المیاء:-
انتہائی دکھ کی بات یہ ہے کہ بڑے ویلفئیر کے اداروں اور میگا پروجیکٹس کے مالکان جو کہ دونوں اپنے اپنے روپ میں مافیاز ہیں- اورسیز کی خون پسینے سے کما کر اعتماد کی بنا پر پاکستان میں انویسٹمنٹ یا چیرٹی کے لیے بھیجی گئی رقم کو بڑے پیمانے پر حاصل کر کے دوبارہ بیرون ملک شفٹ کر کے اپنے ذاتی کاروبار دوبئی، یورپ اور دوسرے ملکوں میں کرتے ہیں اور ٹھاٹھ سے زندگی گزارتے ہیں ۔۔۔۔ اسطرح یہ آنے والی چھوٹی چھوٹی رقم بڑی بن کر چلی جاتی ہے اور ملک معیشت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑ سکتا۔۔۔۔۔۔
اوورسیز بھائیوں سے دست بستہ گذارش ہے کہ ملکی مفاد میں ن گذارشات پر غور فرمائیں اور اپنی محنت کی کمائی کا مثبت استعمال بہتر سے بہتر انداز میں کریں ۔۔۔۔۔

(بلال مصطفوی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں