پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے کئی چیلنجز کا سامنا ہے جنہیں سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی اور ایندھن کی بچت کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے، اور پاکستان بھی اس عالمی رجحان کا حصہ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت نے 2020 میں الیکٹرک وہیکل (EV) پالیسی متعارف کرائی، جس کا مقصد 2030 تک 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک پر منتقل کرنا ہے۔ یہ پالیسی ماحول کی بہتری اور درآمدی تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ تاہم، چارجنگ انفراسٹرکچر کی کمی، الیکٹرک گاڑیوں کی زیادہ قیمت، اور عوامی آگاہی کی کمی اس صنعت کی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبے مل کر سرمایہ کاری کریں، چارجنگ اسٹیشنز قائم کریں، اور الیکٹرک گاڑیوں کو سبسڈی فراہم کریں تو یہ شعبہ تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔
آٹو انڈسٹری کے زوال کی وجوہات بھی غور طلب ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی، اور درآمدی پابندیوں نے اس شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان کی آٹو انڈسٹری بنیادی طور پر درآمدی پرزوں پر انحصار کرتی ہے، اور مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کی کمی نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت کی غیر مستحکم پالیسیز اور بھاری ٹیکسز نے گاڑیاں بنانے والے اداروں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں اور عوام کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔
اگر پاکستان کو اپنی آٹو انڈسٹری کو بچانا ہے اور الیکٹرک گاڑیوں کے میدان میں آگے بڑھنا ہے تو حکومت کو پالیسیز میں استحکام لانا ہوگا، مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ کو فروغ دینا ہوگا، اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، عوامی شعور میں اضافہ اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ترغیب دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں، تو پاکستان نہ صرف اپنی آٹو انڈسٹری کو دوبارہ مستحکم کر سکتا ہے بلکہ الیکٹرک گاڑیوں کی عالمی دوڑ میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔