بابری مسجد: تعارف
بابری مسجد ہندوستان کے شہر ایودھیا میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں 1528 میں تعمیر کی گئی ایک تاریخی مسجد تھی۔ اس مسجد کو بابر کے جرنیل میر باقی نے تعمیر کروایا۔ بابری مسجد کی جگہ کو ہندو مذہب کے ماننے والے بھگوان رام کی جائے پیدائش “رام جنم بھومی” قرار دیتے ہیں۔ اس دعوے کی بنیاد پر یہ جگہ کئی دہائیوں تک ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کا مرکز بنی رہی۔
تنازع کی ابتدا
بابری مسجد کے تنازع کی تاریخ 1853 سے شروع ہوتی ہے جب پہلی بار ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان یہاں جھگڑا ہوا۔ 1949 میں اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہوا جب کچھ ہندو افراد نے مسجد کے اندر رام کی مورتی رکھ دی۔ اس کے بعد مسجد کو بند کر دیا گیا، اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ 1980 کی دہائی میں وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس تنازع کو شدت دی اور ہندو عوام کو مسجد کے خلاف بھڑکایا۔ 1986 میں عدالت کے حکم پر ہندوؤں کو یہاں پوجا کرنے کی اجازت دی گئی، جس سے تنازع مزید بڑھ گیا۔
6 دسمبر 1992 کا سانحہ
6 دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد، بھارتیہ جنتا پارٹی، اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں نے ایودھیا میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا، جس میں لاکھوں ہندو کارکن شریک ہوئے۔ ریلی کے دوران مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ یہ واقعہ پورے ہندوستان میں مذہبی کشیدگی کا سبب بنا اور ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، جن میں ہزاروں افراد مارے گئے۔
مسجد کی شہادت کے اثرات
بابری مسجد کی شہادت کا اثر ہندوستان کے سماجی اور سیاسی نظام پر گہرا پڑا۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جن میں بڑی تعداد میں جانی و مالی نقصان ہوا۔ یہ واقعہ ہندوستان کی سیکولر شناخت پر سوالیہ نشان بن گیا۔ دنیا بھر میں اس واقعے کی مذمت کی گئی، اور کئی اسلامی ممالک نے بھارت کے رویے پر شدید تنقید کی۔
عدالتی کارروائی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
بابری مسجد کے معاملے پر دہائیوں تک عدالتی کارروائیاں چلتی رہیں۔ 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین ہندوؤں کے حق میں دے دی اور مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل زمین فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے بعد 2020 میں رام مندر کی تعمیر شروع کی گئی، جسے ہندوؤں کی بڑی کامیابی قرار دیا گیا، لیکن مسلمانوں نے اس فیصلے کو ناانصافی سمجھا۔
اختتامیہ
بابری مسجد کا سانحہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے جو مذہبی انتہا پسندی اور سیاسی مفادات کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔ اس واقعے نے ہندوستان کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سیکولر اقدار کو شدید نقصان پہنچایا۔ یہ سانحہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ مذہبی اختلافات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے معاشرے میں نفرت اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت آج بھی انصاف، مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک متنازع اور جذباتی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔