18

ملک شام کی موجودہ صورتحال اور وجوہات ۔

شام کی موجودہ صورتحال بہت پیچیدہ ہے، لیکن اسے آسان زبان میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ملک کئی سالوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس جنگ کی شروعات 2011 میں اس وقت ہوئی جب لوگوں نے حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ یہ احتجاج شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تھا، کیونکہ عوام کو لگتا تھا کہ ان کی حکومت کرپٹ، غیر منصفانہ، اور جابرانہ ہے۔

بشار الاسد کی حکومت نے مظاہروں کو دبانے کے لیے سختی کی، جس سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ شام میں مختلف فرقے (مثلاً سنی، شیعہ، علوی) آباد ہیں۔ حکومت ایک فرقے (علوی) سے تعلق رکھتی ہے، جس سے دوسرے فرقے ناراض تھے۔ یہ فرقہ وارانہ اختلافات بھی تنازع کو بڑھانے میں اہم تھے۔

مختلف ممالک نے اپنی سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے اس جنگ میں مداخلت کی۔ ایران اور روس بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ، سعودی عرب، اور ترکی باغیوں (حکومت مخالف گروہوں) کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس دوران داعش نامی شدت پسند گروپ بھی ابھرا، جس نے مزید تباہی مچائی۔ شام میں تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضے کی کوششیں بھی جنگ کی ایک اہم وجہ ہیں۔

عام لوگ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، مہاجر کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں، اور کئی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اسپتال، اسکول، اور دیگر بنیادی ڈھانچے تباہ ہو چکے ہیں، اور کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیں کم یاب ہو گئی ہیں۔

شام کے مختلف حصے مختلف گروہوں کے کنٹرول میں ہیں۔ حکومت کچھ بڑے شہروں پر قابض ہے، جبکہ باغی، کرد گروپ، اور شدت پسند تنظیمیں کچھ علاقوں پر قابض ہیں۔ امن قائم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن کوئی بڑا کامیاب نتیجہ نہیں نکلا۔

شام کی جنگ کی اصل وجہ اقتدار کی لڑائی، فرقہ واریت، اور بیرونی مداخلت ہیں۔ عام لوگ اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، اور ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اس کا حل صرف تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت بند کرنے میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں