پاگل کتے کی بیماری، جسے ریبیز کہا جاتا ہے، ایک خطرناک وائرس ہے جو عام طور پر کتے، بلی، یا جنگلی جانور کے کاٹنے یا لعاب کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ وائرس دماغ اور اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے اور اگر وقت پر علاج نہ ہو تو موت کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان میں ہر سال ہزاروں لوگ کتے کے کاٹنے کا شکار ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق، پاکستان میں ریبیز کی وجہ سے سالانہ 2000 سے زیادہ اموات ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔ خاص طور پر وہ علاقے جہاں آوارہ کتوں کی تعداد زیادہ ہو، وہاں یہ مسئلہ شدید ہوتا ہے۔
پاگل کتے کی بیماری کی علامات عام طور پر ایک سے تین مہینے بعد ظاہر ہوتی ہیں، لیکن کبھی کبھار جلدی یا دیر سے بھی ہو سکتی ہیں۔ ابتدا میں متاثرہ شخص کو بخار، تھکن، اور کاٹے کی جگہ پر جلن محسوس ہو سکتی ہے۔ جیسے جیسے وائرس پھیلتا ہے، مریض میں پانی سے خوف، بے چینی، غصہ، یا فالج جیسی علامات نظر آتی ہیں۔ علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان میں اس بیماری کے علاج کے لیے سہولیات محدود ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ زیادہ تر سرکاری اسپتالوں میں ویکسین دستیاب ہوتی ہے، لیکن لوگوں کو اس کے بارے میں شعور نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو کتا کاٹ لے تو فوری طور پر متاثرہ جگہ کو صابن اور پانی سے دھونا ضروری ہے اور پھر قریبی اسپتال سے رجوع کرنا چاہیے۔ طبی ماہرین متاثرہ شخص کو ریبیز ویکسین لگاتے ہیں جو وائرس کو مزید پھیلنے سے روک سکتی ہے۔
اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو آوارہ کتوں کی ویکسینیشن، عوام میں شعور بیدار کرنے، اور ویکسین کی آسان دستیابی کو یقینی بنانا ہوگا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو وقت پر ویکسین لگوائیں اور آوارہ جانوروں کے قریب جانے سے گریز کریں۔ ریبیز ایک ایسی بیماری ہے جسے بروقت علاج اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔