عطا آباد جھیل 4 جنوری 2010 کو ہنزہ کے علاقے عطا آباد میں ایک بڑے لینڈ سلائیڈ (زمین کھسکنے) کے باعث وجود میں آئی۔ لینڈ سلائیڈ نے دریائے ہنزہ کا راستہ بند کر دیا، جس کی وجہ سے پانی جمع ہونا شروع ہو گیا اور ایک بڑی جھیل کی شکل اختیار کر لی۔
جھیل کی لمبائی تقریباً 21 کلومیٹر ہے۔ چوڑائی مختلف مقامات پر 1 سے 3 کلومیٹر تک ہے، اور زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریباً 358 فٹ (109 میٹر) ہے۔ اس جھیل میں تقریباً 340,000,000 مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ جھیل کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 2,600 میٹر (8,500 فٹ) ہے۔
جھیل کی تشکیل کے بعد کئی گاؤں ڈوب گئے، جن میں گلمت، ششکٹ، اور گوجال کے علاقے شامل ہیں۔ تقریباً 6000 افراد بے گھر ہو گئے، اور کئی ایکڑ زرخیز زمین پانی میں ڈوب گئی۔ قراقرم ہائی وے کا ایک بڑا حصہ بھی پانی میں آ گیا، جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے درمیان زمینی رابطہ متاثر ہوا۔
جھیل نے ہنزہ کی سیاحت کو فروغ دیا ہے اور یہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے ایک مشہور مقام بن چکی ہے۔ جھیل پر کشتی رانی، جیٹ سکینگ، اور دیگر واٹر سپورٹس سیاحوں کے لیے دلچسپ سرگرمیاں ہیں۔ مقامی لوگوں نے سیاحت سے اپنی آمدنی میں اضافہ کیا ہے، لیکن جھیل کے قیام سے زمینوں کی تباہی اور نقل مکانی کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔
جھیل کو پانی کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قراقرم ہائی وے کو پانی کے نیچے سے گزارنے کے لیے سرنگیں تعمیر کی گئیں، جنہیں عطا آباد ٹنل کہا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ 2015 میں مکمل ہوا۔ جھیل کا پانی زراعت اور بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔