13

چاکیلٹی ہیرو ۔ وحید مراد

جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مشہور، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااثر اداکاروں میں سے ایک سمجھے جانے والے معروف اداکار، فلم ساز، پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے ‘چاکلیٹی’ ہیرو وحید مراد کی پراسرار موت کو 41 برس بیت گئے

+اوچ شریف (جناح لائبریری رپورٹ/ یوم شنبہ، بتاریخ 23 نومبر 2024ء) آج پاکستانی فلم انڈسٹری کے ‘چاکلیٹی ہیرو’ وحید مراد کا یوم وفات ہے، جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مشہور، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بااثر اداکاروں میں سے ایک سمجھے جانے والے معروف اداکار، فلم ساز، پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر وحید مراد 2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ مشہور پاکستانی فلم ڈسٹری نثار مراد اور ان کی اہلیہ شیریں مراد کی واحد اولاد تھے۔

بچپن میں اپنے والد کے پاس باقاعدگی کے ساتھ آنے والے نامور اداکاراوں سے متعرف ہونے سے وحید مراد میں اداکاری کرنے کے لئے حوصلہ ملا۔ بچپن میں وہ گردن پر گٹار لٹکانے اور اپنے دوستوں میں ایک اچھے ڈانسر کے طور پر مشہور تھے. انہوں نے سکول کی کئی ڈراموں میں حصہ لیا جس نے انہیں بچپن میں مزید شہرت دی۔

وحید نے Marie Colaco School کراچی سے 1954ء میں میٹرک پاس کیا. فلمی کیرئیر میں آنے کے لئے بے تاب وحید کو والدین نے پہلے اسے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے کہا۔ وحید نے ایس ایم آرٹس کالج کراچی میں میں گریجویشن کیا اور پھر کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز مکمل کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے ماسٹرز کئے ہوئے ہیرو تھے۔

اتنے مضبوط تعلیمی پس منظر اور فلمی گھرانے نے وحید مراد کو دیگر فلم سازوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور اداکار کے طور پر لا کھڑا کر دیا۔ وحید مراد کراچی کے میمن صنعت کار ابراہیم میکر کی بیٹی سلمہ کو پسند کرتے تھے۔ ان کی شادی 17 ستمبر 1964ء کو سرانجام پائی. وہ گھر پر ’بی بی‘ کے نام سے اپنی بیوی کو پکارا کرتے تھے، ان کی دو بیٹیاں عالیہ اور سعدیہ اور ایک بیٹا عادل تھے. سعدیہ بچپن میں انتقال کر گئی تھی۔

پروڈیوسر کے طور پر وحید مراد اپنے والد کے قائم شدہ فلم آرٹس کے تحت فلم “انسان بدلتا ہے” سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا۔ پروڈیوسر کے طور ان کی دوسری فلم “جب سے دیکھا ہے تمہیں” میں انہوں نے ہیروئین کے طور پر زیبا کو درپن کے ساتھ ڈالا۔ اس کے بعد درپن نے زیادہ تر سٹوڈیو میں دیر سے آنا شروع کر دیا۔ زیبا نے ان کی اگلی فلم میں ہیرو کے طور پر خود وحید کی تجویز پیش کی۔ وحید خود اپنی فلموں میں بطور ہیرو کرنے کے لئے تیار نہیں تھے مگر جب یہی تجویز اپنے پرانے اچھے دوست پرویز ملک سے آئی تو انہوں نے زیبا کے شریک اسٹار ہونے کی شرط رکھی، زیبا نے شرط قبول کر لی. نتیجے کے طور پر انہوں نے 1962ء میں اپنی سب سے پہلی فلم “اولاد” میں ایک سپورٹ کردار میں اداکاری کی۔ فلم میں ان کے دوست ایس ایم یوسف کی طرف سے ہدایت کاری کی گئی تھی۔ “اولاد” ناقدین کی طرف سے بہت زیادہ پسند کی گئی اور اسے سال کی سب سے بہترین فلم کے زمرے میں نگار ایوارڈ ملا۔ “ہیرا اور پتھر” ایک معروف اداکار کے طور پر ان کی پہلی فلم تھی اور اس کی بڑی کامیابی سمجھی گئی۔ انہں اسی فلم کے لیے بہترین اداکار کے زمرے میں نگار ایوارڈ ملا۔

1966ء میں انہوں نے پرویز ملک کی ہدایت کردہ اپنی پروڈکشن “ارمان” میں کام کیا، “ارمان” نے اس وقت کے تمام باکس آفس کے ریکارڈز توڑ دیئے اور تھیٹر میں 75 ہفتے مکمل کئے اور غالباً انہیں پاکستانی فلموں کا پہلا سپر اسٹار بنایا۔ فلم ایک رومانوی اور مدھر محبت کی کہانی ہے۔ خاص طور پر احمد رشدی کے گائے ہوئے کوکو کورینا، اکیلے نہ جانا، بے تاب ہو ادھر تم اور زندگی اپنی تھی اب تک جیسے گانے نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں میں بے حد مقبول ہوئے۔

انہوں نے فلم “ارمان” کے لئے دو نگار ایوارڈز حاصل کئے، ایک بہترین پروڈیوسر اور دوسرا بہترین اداکار کے طور پر۔ اسی سال کے دوران وہ زیبا کے ساتھ ایک سپرہٹ فلم “جاگ اٹھا انسان” میں اداکاری کی. یہ حقیقت ہے کہ وحید نے زیبا کو اپنی فلموں میں کاسٹ کر کے ان کی ملک گیر شہرت میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا۔

1967ء میں انہوں نے “دیور بھابی”، “دوراہا”، “انسانیت” اور “ماں باپ” جیسی لازوال فلموں میں معروف اداکاری کی۔ سینما گھروں میں 50 ہفتے مکمل کرنے والی فلم “دیور بھابی” ان کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ دیور بھابی کی کہانی، پاک بھارت کی فرسودہ اور جاہلانہ سماجی خیالات و روایات پر مبنی ہے۔ “انسانیت” میں وحید نے ایک سرشار ڈاکٹر کا کردار ادا کیا ہے جو ان کی بہترین فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

1964ء سے 1968ء تک وحید مراد اور پرویز ملک نے “ہیرا اور پتھر”، “ارمان”، “احسان”، “دوراہا” اور “جہاں تم وہاں ہم” جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔ وحید مراد، پرویز ملک، مسرور انور، سہیل رانا، احمد رشدی اور زیبا کی کامیاب ملاپ نے ایک بڑی تعداد میں بہترین فلمیں بنائیں۔ وحید مراد فلم آرٹس کی چھتری کے تحت پرویز ملک، مسرور انور اور سہیل رعنا آئے لیکن 1960ء کی دہائی کے اخیر میں وحید مراد اور ’فلم آرٹس‘ کی ٹیم ارکان کے درمیان جھگڑے میں اضافہ ہو گیا۔ پرویز ملک وحید کی فلموں کی کامیابی کا سارا کریڈٹ خود لینے اور دوسروں کو بہت کم پذیرائی دینے پر ناخوش تھے. تو یوں فلم آرٹس کو توڑ دیا گیا اور پرویز ملک نے نئے اداکاروں کے ساتھ ان کے اپنے منصوبوں میں کام کرنا شروع کر دیا۔

دو فلموں یعنی “اسے دیکھا اسے چاہا” اور “دشمن” جو 1974ء میں 6 سال کی ایک طویل وقفے کے بعد بنائی گئیں جو کہ ’فلم آرٹس‘ کے زیرِ پروڈکشن بھی نہیں تھیں، سمیت سات فلمیں وحید اور ملک کی کامیاب جوڑی نے بنائی۔

1969ء میں، وحید نے فلم “اشارہ” بنائی، جسے اس نے بیک وقت پروڈیوس و ہدایت کاری و تحریر و اداکاری کی، مکر فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔ 1969ء میں فرید احمد کی ہدایت کردہ فلم “عندلیب” جاری کی گئی۔ جس میں دیگر شریک ستاروں میں شبنم، عالیہ،طالش اور مصطفی قریشی شامل تھے۔

“عندلیب” سال کی سب سے بڑی فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی. فلم بینوں نے ان کی اداکاری بے حد پسند کی، بالخصوص احمد رشدی کا گایا ہوا گانا “کچھ لوگ روٹھ کر بھی” جس میں وحید اپنی سرخ سپورٹس کار میں شبنم کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں چھیڑچھاڑ کر رہے ہیں، بے حد مقبول ہوا۔ وحید مراد نے فلم کے لیے بہترین اداکار کے زمرے میں نگار ایوارڈ حاصل کیا. ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ گلوکار احمد رشدی کا وحید مراد کی کامیابی میں اہم کردار تھا، اور رشدی کی آواز خاص اسی کے لئے بنائی گئی تھی۔

1970ء کی “نصیب اپنا اپنا” اور “انجمن” جیسی سپرہٹ، 1971ء کی “نیند ہماری خواب تمہارے” اور “مستانہ ماہی” (وحید کی پہلی پنجابی فلم)، 1972ء کی “بہارو پھول برساو”، “عشق میرا ناں” (پنجابی فلم)، 1974ء کی “شمع”، 1975ء کی “جب جب پھول کھلے”، 1976ء کی “شبانہ”، 1978ء کی “سہیلی”، “پرکھ”، “خدا اور محبت”، اور 1979 کی “آواز” اور “بہن بھائی” جیسی فلمیں سپرہٹ رہیں. “مستانہ ماہی” وحید کی پہلی پنجابی فلم تھی جو انہوں نے خود بنائی جبکہ افتخار خان نے ہدایت کاری کی تھی۔ “مستانہ ماہی” خالصتا ایک رومانٹک اور موسیقی سے بھرپور فلم تھی. وحید نے “مستانہ ماہی” میں بہترین اداکار کے لئے نگار ایوارڈ حاصل کیا.

1970ء کی ابتدائی دہائی کے دوران چند اداکاراؤں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ زیبا کو محمد علی کے ساتھ شادی کے بعد وحید مراد کے ساتھ کام کرنے کی پابندی لگ گئی تھی. جلد ہی شبنم کو اس کے نوبیاہتا شوہر روبن گھوش نے وحید کے ساتھ کام نہ کرنے پر مجبور کر دیا. یہاں تک کہ نشو کو بھی اس کے ساتھ کام کرنے کی اجازت بھی نہیں رہی تھی، یہ وحید کی کیریئر کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔

ایک خاص لابی کی اجارہ داری کی وجہ سے پائے کے پروڈیوسر و ڈائرکٹرز نے وحید مراد کو مرکزی کردار کے بجائے بطور معاون اداکار کے طور پر پیشکش کرنا شروع کر دیا۔ مزید یہ کہ اداکار ندیم کی 1970ء کی دہائی کی فلمیں وحید مراد کو ایک سخت مقابلہ دے رہی تھی۔ لہٰذا وحید مرکزی کرداروں کے لئے دوسرے درجے کے ہدایت کاروں کی فلموں تک محدود رہ گئے، جس میں وہ ایک دقیانوسی رومانٹک ہیرو کا کردار کرتے ہوئے نظر آتے۔

ناگ منی (1972)، مستانی محبوبہ (1974)، لیلی مجنوں (1974)، عزت (1975)، دلربا (1975)، راستے کا پتھر (1976)، محبوب میرا مستانا (1976)، ناگ اور ناگن (1976) جیسی فلموں نے انہیں ناکامیوں کی گہرائیوں تک پہنچا دیا۔

1970ء کی دہائی کے اخیر اور 1980ء کی دہائی کے آغاز میں وحید مراد پرستش (1977)، آدمی (1978)، خدا اور محبت (1978)، آواز (1978)، بہن بھائی (1979)، وعدے کی زنجیر (1979)، راجہ کی آئے گی بارات (1979)، ضمیر (1980)، بدنام (1980)، گن مین (1981)، کرن اور کلی (1981)، گھیرائو (1981) آہٹ (1982)، اور مانگ میری بھر دو (1983) جیسی فلموں میں ندیم یا محمد علی کے ساتھ بطور معاون اداکار کے طور پر محدود ہو کر رہ گئے۔

ہیرو (1985) اور زلزلہ (1987) ان کی موت کے بعد ریلیز کی گئیں۔ ان کی غیر رلیز شدہ یا نامکمل فلمیں مقدر، آنکھوں کے تارے ، آس پاس اور انداز تھیں۔ ہیرو ان کے قریبی دوست اقبال یوسف کی طرف سے ہدایت کردہ وحید کی زندگی کی آخری فلم تھی، یہ فلم 1985ء میں وحید کی موت کے تقریبا دو سال کے بعد جاری کی گئی تھی۔ ایک اور وحید کی تاخیری فلم زلزلہ بھی جو کہ اقبال یوسف کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی ، جسے 1987 ء میں ان کی موت کے 4 سال کے بعد ریلیز کی گئی تھی۔ زلزلہ تاہم باکس آفس پر کچھ نہ کرسکی مگر ہیرو ان کی کامیاب فلموں میں سے ایک تھی اور اس نے کراچی کے سینماوں میں 25 ہفتے مکمل کئے۔

وحید مراد نے اپنے 25 سالہ کیریئر میں زیبا، شمیم آرا، رانی، نغمہ، آلیہ، سنگیتا، کویتا، آسیہ، شبنم، دیبا، بابرہ شریف، رخسانہ، بہار اور نیلو جیسی اداکاراؤں کے ساتھ فلموں میں جوڑی بنائی. انہوں نے کل 124 فلموں میں کام کیا جن میں 38 بلیک اینڈ وہائٹ اور 86 رنگین فلمیں ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے 6 فلموں میں بطور مہمان اداکار کام کیا، جن میں ان کے کیریئر کی پہلی فلم ساتھی، جو کہ 1959ء میں ریلیز ہوئی تھی بھی شامل ہے۔

انہوں نے 115 اردو فلموں، 8 پنجابی فلموں اور 1 پشتو فلم میں کام کیا اور بطور بہترین پروڈیوسر اور بطور بہترین اداکار کے طور پر 32 فلم ایوارڈز حاصل کئے۔ اس کے علاوہ انہیں 2010 میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کی بیوہ سلمہ مراد نے حاصل کیا۔

23 نومبر 1983ء کی صبح جب وحید مراد دیر تک نہیں جاگا تو دروازہ توڑ کر کھولا گیا تو وحید مراد مردہ حالت میں فرش پر پڑے پائے گئے، ان کی جواں مرگی ابھی تک پراسراریت کی دھند میں لپٹی ہے، وحید مراد گلبرگ قبرستان، علی زیب روڈ، لاہور میں اپنے والد کی قبر کے قریب دفن کئے گئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں