کوہ ہمالیہ
جس سے پہلی محبت نویں جماعت میں اس وقت ہوئی جب درسی کتاب کا یہ شعر نظر سے گزرا
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان
تب سے آج تک ہمالیہ کے بارے جان کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ مغربی ہمالیہ کے متصل سلسلوں میں آنا جانا تو عموما رہتا ہے تاہم گذشتہ دنوں مغربی ہمالیہ اور سنٹرل قراقرم رینج کے اضلاع کا تفصیلی وزٹ کیا۔ جسکا کافی حصہ تصویری اور تحریری شکل میں آپکی خدمت میں شیئر کیا جا چکا ہے۔
ہمالیہ بلند ترین قد کاٹھ کیساتھ اپنے سر پربرف کا سفید کلاہ پہنے ہوئے قدرت کا ایک عظیم راز ہے جس کے ارد گرد زندگی کا ایک بہت بڑا دائرہ چلتا ہے۔ اربوں سالوں پر محیط عرصہ سے یہ قدرت کا راز دان ذندگی اور تہذیب و تمدن کی کئی داستانیں اپنے اندر سموئے خاموش کھڑا ہے۔
ہمالیہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معانی ہیں برف کا گھر۔
50 ملین سال پہلے انڈین ٹیکٹونک پلیٹ اور یوریشین پلیٹ کے تصادم سے معرض وجود میں آنے والا دنیا کا یہ بلند ترین پہاڑئ سلسلہ ہے۔ جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے۔ 2400 کلو میٹر طویل سلسلہ ہمالیہ کا مغربی لنگر نانگا پربت دریائے سندھ کے شمالی ترین موڑ کے قریب جنوب میں دیا مر کے علاقے میں ہے جبکہ مشرقی لنگر نمچا بروا دریائے یارلنگ سانگپو کے عظیم موڑ کے پاس مغرب میں آسام کے علاقے میں واقع ہے۔ مغرب میں اسکی چوڑائی 350 کلو میٹر اور مشرق میں 150 کلو میٹر تک چلتی ہے۔ ہلال یا قوس کی شکل میں تہہ در تہہ پہاڑوں کا یہ سلسلہ مغرب -شمال مغرب سے مشرق جنوب – مشرق تک چلتا ہوا پاکستان، کشمیر، چین، بھارت، نیپال اور بھوٹان کو پار کرتا ہوا سطح مرتفع تبت کو برصغیر کے میدانوں سے الگ کرتا ہے۔ مشرقی اور مغربی وسعت کی بنیاد پر ہمالیہ کو پنجاب، کمانو، نیپال، آسام اور پورونچل ہمالیہ پانچ سلسلوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دنیا 8000 میٹر سے بلند 14 کی 14 چوٹیاں ہمالیہ سلسلے میں واقع ہیں۔ جبکہ 7200 میٹر سے بلند 100 چوٹیاں بھی ہمالیہ میں واقع ہیں۔ ہمالیہ متوازی پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔
جنوب میں بیرونی /زیریں ہمالیہ یا شیوالک پہاڑیاں جنکی چوڑائی 10سے 15 کلو میٹر اور بلندی 100 سے 900 میٹر ہے۔ Lesser Hamaliy/ہماچل ہمالیہ اس کی چوڑائی 50 کلو میٹر اور بلندی 3700 سے 4700 میٹر ہے۔
عظیم ہمالیہ/Greater Hamaliya/ Hmardri جو سب سے بلند اور مرکزی رینج ہے۔ اسکی چوڑائی50 کلو میٹر اور اونچائی 6100 میٹر اوسط ہے۔ تاہم ماونٹ ایورسٹ اور کئی بلند چوٹیاں اس میں واقع ہیں۔
ٹرانس ہمالیہ جس میں قراقرم ، لداخ، کیلاش اور زینسر رینج شامل ہے۔ بعض اوقات قراقرم اور کوہ ہندوکش کو بھی ہمالیہ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ تاہم عموما انکو الگ سمجھا جا تا ہے۔ قطبین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا گلیشئر ساچن گلیشئر بھی سلسلہ ہمالیہ میں واقع ہے۔ جسکی لمبائی 70 کلو میٹر ہے۔ اسے دنیا کا تیسرا قطب بھی کہتے ہیں۔ اسکے علاوہ بالتورو گلیشئر ، بیافو گلیشئر ، ریمو گلیشئر بھی بڑے گلیشئرز ہیں۔ 15000 گلیشئرز کے حامل سلسلہ ہمالیہ میں 12000 مکعب کلو میٹر پانی کے ذخائر موجود ہیں۔ ہمالیہ 53 ملیئن انسانوں کا گھر ہے۔ دریا گنگا، دریائے سندھ ، دریائے سانگپو- برہم پترا جیسے کئی بڑے دریا ہمالیہ سے نکلتے ہیں۔ انکا مشترکہ طاس تقریبا 600 ملین افراد کا گھر ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی اس میں رہتی ہے۔ ہمالیہ کا جنوبی ایشیا اور تبت کی تہذیب پر گہرا اثر ہے۔ ہندو مت اور بدھ مت کے نزدیک ہمالیہ کی کئی چوٹیوں کا مقدس حوالہ ہے۔اسی طرح مبلغین اسلام نے بھی اسلامی ثقافت کا خوب پرچار کیا۔ جسکے نقوش کم و بیش ہر جگہ ملتے ہین۔ سلسلہ ہمالیہ کے برصغیر کے موسم پر بھی گہرے اثرات ہیں یہ سائبریا سے آنے والی یخ بستہ ہواوں کو برصغیر کے میدانی علاقوں میں داخل ہونے سے روکتا ہے جس سے ان علاقوں کا موسم قدرے گرم مرطوب رہتا ہے۔ اسی طرح بخیرہ عرب اور خلیج بنگال سے اٹھنے والے آبی بخارات سے لدی ہوائیں ہمالیہ سے ٹکرا کر برضغیر کے میدانی علاقوں میں مون سون کا باعث بنتی ہیں۔ جس سے ان علاقوں میں فصلوں کی بہترین پیداوار ہوتی ہے۔ ہمالیہ ہزاروں جاندار سپیشیز کا گھر ہے۔ ہمالیہ میں ہزاروں اقسام کی جڑی بوٹیوں اور قیمتی نباتات کی پیداوار ہوتی ہے۔ برفانی چیتے،بھرل، ہمالیائی نیلی بھڑیں، کستوری ہرن، کالے ریچھ ، سرخ پانڈا ، جنگلی گھوڑے ، لنگور وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ دیودار، چیڑ ، شاہ بلوط وغیرہ کے گھنے جنگلات ہیں ۔ لا تعدار اور ان گنت خصوصیات کا حامل جنوبی ایشیاء کی تہذیب ، معاشرت، معاشیات اور موسم پر گہرے اثرات رکھنے والا سلسلہ ہمالیہ بلاشبہ ایشیا کے سر کا تاج ہے۔1901 میں علامہ محمد اقبال نے ہمالہ پر پوری نظم لکھی جو پہلے مخزن میں چھپی بعد ازاں جو بانگ درا میں ہے۔ ۔۔۔۔۔
اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسمان
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لۓ
تو تجلّی ہے سراپا چشم بینا کے لۓ
امتحان دیدہ ظاہر میں کوہستاں ہے تو
پاسباں اپنا ہے تو ، دیوار ہندوستاں ہے تو
مطلع اوّل فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو
سوۓ خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو
برف نے باندھی ہے دستار فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر
تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن
چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمیں پر اور پہناۓ فلک تیرا وطن
دامن موج ہوا جس کے لۓ رومال ہے
چشمۂ دامن ترا آئنۂ سیاّل ہے
ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے
تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی ، جسے
دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لۓ
ہاۓ کیا فرط طرب میں جومتا جاتا ہے ابر
فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی
جھومتی ہے نشۂ ہستی میں ہر گل کی کلی
یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی
دست گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا
کنج خلوت خانۂ قدرت ہے کاشانہ مرا
آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی
کوثر و نسیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
آئنہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی
سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی
چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو
اے مسافر دل سمجھا ہے تری آواز کو
لیلی شب کھولتی ہے آ کے جب زلف رسا
دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا
وہ خموشی شام کی جس پر تکلّم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر
خوش نما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکن آباۓ انساں جب بنا دامن ترا
کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازہ رنگ تکلّف کا نہ تھا
ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایاّم تو
(بلال مصطفوی)