ٹیکسی ہائر کی اور قونیہ ریلوے اسٹیشن سے مولانا جلال الدین رومی کے مزار کی طرف چل پڑے۔۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ راستے میں کئی ایک جگہوں پر لفظ mevlana لکھا نظر آیا ۔۔ کچھ دیر کے بعد سمجھ میں آیا کہ کہ یہ “مولانا” لکھا ہے ..۔۔ترک برادران مولانا روم کے لئیے یہی mevlana rumi اسپیلنگ استعمال کرتے ہیں ۔۔۔لیکن مزار کو ترکی میں بھی مزار ہی کہا جاتا ہے۔۔۔
مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا ، مسجد درویشوں کے کمرے، لائبریری تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسيع لان ، صحن ٫ باغیچہ اور دفاتر وغث پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رہتا ہے اور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔۔۔
مولانا کے مزار کی مرکزی عمارات کے اوپر روائیتی ٹرکش گنبد اور باریک مینار بنے ہیں مگر سب سے نمایاں مخروطی سبز رنگ کا گنبد ہے ۔۔۔
پرانی عمارت کے اندر داخل ہوں تو ایک بڑا سا صحن سامنے آتا ہے جس میں پرانے وقتوں کا فوارہ لگا ہے۔۔۔
ساتھ ہی مزار میں داخلے کا دروازہ ہے۔۔ اور دروازے کے اوپر مولانا روم کا ایک شعر لکھا ہے۔۔۔
کعبتہ العشاق با شد این مقام بر کہ ناقص آید این جا شد تمام
ترجمہ: یہ مقام عاشقوں کا کعبہ ہے جو بھی یہاں آتا ہے وہ مکمل ہوجاتا ہے۔
اندر داخل ہونے سے پہلے جوتوں پر چڑھانے کے لئیے پلاسٹک کے تھیلی نما غلاف دئیے جاتے ہیں تاکہ مٹی وغیرہ اندر نہ جائے۔۔۔اندر داخل ہوتے ہی گویا انسان مولانا روم کے زمانے میں پہنچ جاتا یے۔۔۔ اونچی اونچی چھتوں اور محرابوں کے خوبصورت ڈیزائنوں میں جا بجا قرآنی آیات کی کیلی گرافی کی گئی ہے اور ستونوں ہر خوبصورت گلکاری کے نمونے بنے ہیں۔۔۔ایک عجیب سی لے میں بانسری نما آواز مسلسل سننے کو ملتی ہے۔۔۔
اندر ایک آدھ نہیں بلکہ درجنوں قبریں موجود ہیں ۔۔۔لیکن سب سے بڑی اور سب سے نمایاں قبر مولانا جلال الدین رومی کی ہی ہے۔۔۔ وہی روائیتی ترکش ڈیزائین ،جو دوسرے سلاطین کے مقبروں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔ایک سائیڈ سے اونچی تکون نما قبر جو پائینتی کی طرف سے بتدریج کم اونچائی کی حامل ہوکر ڈھلوان نما بن جاتی ہے۔۔۔سیاہ اور سنہری چادر سے ڈھکی ہوئی جس پر قرآنی آیات کاڑھی گئی ہیں۔۔۔ سرھانے کی طرف قبر کے اوپر سبز رنگ کی بڑی سی پگڑی پڑی ہے۔۔۔ اس سے مقصود صاحب قبر کو عزت دینا ہوتا تھا ۔۔۔
قبر کے اردگر ان کے دوست احباب ، دو بیٹوں ، اہل خانہ ، اور معتقدین کی قبریں بھی موجود ہیں۔۔۔
وہاں پہ کھڑے ہوکر سب اہل قبور کے لئیے فاتحہ خوانی کی اور ان سب کے بلندی درجات کے لئیے دعا کی ۔۔۔
ساتھ ہی متصل ایک کمرے میں مولانا روم سے منسوب انکے زیر استعمال رہنے والی ذاتی اشیاء نمائش کے لئیے رکھی گئی ہیں۔۔
مولانا روم کا لباس ، انکی جائے نماز ، کندھے پہ رکھنے والا رومال، سر پہ پہننے والی تین ٹوپیاں ، لکڑی کا پیالہ ، انکے ہاتھوں سے لکھی جانیں والی کتابیں اور دیگر تبرکات۔۔۔ان سب اشیاء کی زیارت کی ۔۔۔
مزار کے دیگر کمروں میں وہی صدیوں پرانا خانقاہی ماحول بنایا گیا ہے جیسے یہاں طالب علم پڑھتے ہوئے ابھی ابھی اٹھ کر باہر گئیے ہوں۔۔ ۔ ایک سائیڈ کے چند کمروں میں تو مومی مجسمے بنا کر وہی مولانا روم کے زمانے کا مدرسہ بنا دیا گیا ہے ۔۔ جس میں دکھایا گیا ہے کہ گویا کہ مولانا سے طالب علم پڑھ رہے ہیں۔۔۔کسی جگہ بحث مباحثے کا ماحول تو کہیں طالب علموں کے لئیے کھانا وغیرہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔۔۔الغرض کوشش کی گئی ہے کہ پرانے زمانے کے قونیہ کی ایک جھلک زائرین کو دکھائی جائے ۔۔۔
یہاں ایک اور حیران کن بات بھی بتاتا چلوں کہ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں شاعرِ مشرق، علامہ محمد اقبال (رح) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اُن کی آخری آرام گاہ لاہور میں ہے۔ اُن کا مزار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان حضوری باغ میں واقع ہے لیکن کیا آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ علامہ صاحب کی دو قبریں ہیں اور ان میں سے ایک قبر یہاں قونیہ میں واقع ہے؟
حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے نواح میں ایک علامتی قبر پر علامہ صاحب کے نام کی تختی لگی ہے۔۔۔
یہ علامتی قبر دراصل ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا جلال الدین رومی کے رُوحانی تعلق کو بیان کرتی ہے۔ یہ تعلق کتنا گہرا تھا؟ اس کا اندازہ اقبال کی شاعری میں بار بار ہوتا ہے۔
شاید یہ علم ہی ہے جو زمان و مکان کی پابندیاں توڑ دیتا ہے، ورنہ کہاں تیرہویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے رومی اور کہاں 19 ویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والے اقبال، دونوں میں 670 سال کا فاصلہ تھا لیکن علم کی دنیا میں یہ صدیوں کا فاصلہ بھی شاید کوئی معنی نہیں رکھتا ۔۔۔
مولانا رومیؒ سے علامہ محمد اقبالؒ کی روحانی لگن اور بے پایاں محبت کو حکومت ترکی نے اس طرح پذیرائی بخشی کہ 1965 میں مولانا جلال الدین رومیؒ کے مزار کے احاطے میں علامہ اقبالؒ کی ایک علامتی قبر بنائی گئی جس پر تحریر ہے۔”پاکستان کے قومی شاعر اور عظیم مفکر علامہ محمداقبال کو ان کے روحانی پیشوا اور مرشد حضرت مولانا جلال الدین رومی کے حضور جگہ دی گئی۔1965ـ
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں علامہ اقبال کے مزار سے مٹی لا کر قبر بنائی گئی تھی ۔۔۔لیکن تاریخی طور یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔۔۔
رومی کی زندگی میں اگر حضرت شمس تبریزی نہ آتے تو رومی کبھی اپنی شہرۂ آفاق مثنوی نہ لکھ پاتے۔ حضرت شمس تبریزی ان کے پیرو مرشد تھے جنھوں نے رومی کو ظاہری کے بجائے باطنی علوم کی طرف راغب کیا۔ حضرت شمس تبریزی اور مولانا رومی کی صحبت عشق الٰہی، محبت الٰہی، معرفت الٰہی اور تصوف کے سمندر میں چھپے ہوئے موتیوں کو سامنے لاتی ہے، رومی دنیا سے بیگانہ ہو کر صرف اپنے مرشد کے ہو کر رہ گئے تھے۔
یہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر ہی شاہ شمس تبریزی کا مقبرہ تھا۔۔۔گلیوں ہی گلیوں میں پیدل چلتے ہوئے وہاں تک بھی پہنچے لیکن بدقسمتی سے ضروری مرمت کے لیے مزار کے ارد گرد لوہے کی چادریں لگا کے راستہ بند کیا گیا ہوا تھا اور اندر داخلے کی کوئی صورت نہ تھی۔۔۔وہی کھڑے ہوکر صاحب مزار کے لئیے فاتحہ خوانی کی اور واپس ہوئے۔۔۔ یہاں ایک اہم بات بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ملتان میں ” شاہ شمس تبریز” کے نام سے موجود مقبرہ دراصل ” شاہ شمس الدین سبزواری ” کا ہے۔۔۔ جو کوئی اور بزرگ تھے۔۔۔تاہم انہیں ہی غلط العام ہونے کی وجہ سے شاہ شمس تبریزی کہہ دیا جاتا ہے۔۔۔جو کہ درست نہیں۔۔۔
مولانا روم سے منسوب ” رقصِ درویش” live دیکھنے کا شوق تو تھا مگر اس کے لئیے رات کا وقت اور چند دن مخصوص تھے۔۔۔ شاید آج درویشانہ رقص کا دن نہیں تھا۔۔۔
شام ہو رہی تھی۔۔۔ قونیہ شہر کا حسن اور بھی نکھر آیا تھا۔۔ ابھی واپسی کی ٹرین میں چند گھنٹے باقی تھے۔۔ یہ وقت کہاں گزارہ جائے۔۔۔!!!
ایک آپشن تو یہ تھا کہKonya Tropical Butterfly Garden… میں جایا جائے جو کہ 2015 میں بنایا گیا تتلیوں کا بہت بڑا گارڈن ہے۔۔۔ اسے ساڑھے تین چار لاکھ افراد سالانہ وزٹ کرتے ہیں۔۔ اور دوسرا آپشن یہ تھا کہ Kyoto Japanese Park کا وزٹ کر لیتے ہیں۔۔۔ میں نے جاپانی پارک دیکھنا زیادہ بہتر سمجھا۔۔۔
یہ پارک قونیہ کے مرکز سے کوئی بارہ تیرہ کلومیٹر دور یہ پہاڑی نما جگہ پر جاپان کے تعاون سے ، جاپانی ثقافت اجاگر کرنے کے لئیے بنایا گیا ہے۔۔۔36000 مربع میٹر رقبے پر پھیلے اس پارک میں جاپانی طرز تعمیر کی عمارت ، جھیل، پودے اور سرسبز میدان تو ہیں ہی۔۔۔لیکن روائتی جاپانی پکوانوں سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔۔۔ آسمان اب بادلوں سے ڈھک گیا تھا اور معمولی سے بوندا باندی شروع تھی۔۔۔۔وہاں کے خوبصورت ماحول میں وقت کیسے پر لگا کے اڑ گیا ، پتا ہی نہیں چلا۔۔۔
واپس انقرہ جانے والی ٹرین کا وقت ہو چلا تھا۔۔ پارک سے باہر نکلے ، ٹیکسی کرایہ پر لی ۔۔۔ مولانا روم کے شہر پر الوداعی نظر ڈالی اور اللہ کا نام لے کے اسٹیشن کی طرف چل دئیے۔۔۔۔
✍️۔۔۔ شاہد طُور